ہمگام تربیتی سیریز : آخری قسط

گزشتہ سے پیوستہ ‎اس حکمت عملی پہ عمل کرتے ہوئے انگریز نے ہندوستان میں اپنے گماشتوں کے ذریعے انگریزی تعلیم دلا کر اپنے وفادار پیدا کرنے کی ابتداء کردی۔ سرسید احمد خان نے اس وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے علی گڑھ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی اس یونیورسٹی کے پرنسپل ہمیشہ انگریز رہے، عملے کی اکثریت بھی انگریز ہی تھے جس کا نصاب یورپ سے درآمد شدہ تھا۔ یہی کالج ہندو مسلم فرقہ پرستی کی بنیاد بن گیا اور انگریزوں نے گانگریس کے بجائے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور اپنے پالے ہوئے پلے محمد علی جناح کو آگے کیا جو کہ خود مسلمان نہ ہوتے ہوئے مسلمانوں کی نمائندگی کرنے لگا حالانکہ اسی جناح نے شروع میں پاکستان کے تصور کا مذاق اڑایا تھا جس کا حوالہ دیتے ہوئے شری پرکاش نے جو نومبر دسمبر 1934 کے عام انتخابات میں کانگریس کے ٹکٹ پہ سینٹرل لئجسلیٹیو اسمبلی کا ممبر منتخب ہوا تھا۔ اپنے ایک مضمون ” پاکستان کا تصور ” لکھتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ اسمبلی کے پہلے اجلاس میں انگریزوں کی جانب سے کیمرج سے شائع شدہ ایک پمفلٹ بعنوان “پاکستان ” ممبروں میں تقسیم کروایا گیا جس میں ” پ ” سے مُراد پنجاب ” الف ” سے مراد افغانستان ” ک ” سے مراد کشمیر اور انڈیا کے صرف دو اور مسلم اکثریت کے صوبوں کو شامل کیا گیا تھا جس سے لفظ پاکستان مکمل ہوتا تھا ۔ ( واضح رہے کہ بلوچستان کا برصغیر سے الگ ایک خود مختیار ریاست ہونے کی وجہ سے اس پمفلٹ میں کوئی ذکر نہیں تھا ) سر ہنری کریک جو اسمبلی ممبر تھے اس کو پڑھ کر ہنسنے لگے، مجھے خوب یاد ہے کہ مسٹر جناح سب سے زیادہ دیر تک اس تصور کا مذاق اُڑاتے ہوئے ہنستے رہے۔ ‎یہ اسمبلی 1937 میں ختم ہوجاتی لیکن پاکستان کے وجود کو حتمی شکل دینے اور ہندو مسلم فسادات کو بڑھاوا دینے کیلئے یہ اسمبلی 1945 تک برقرار رہی اور مسٹر جناح برطانوی مفادات کے تحت کام کرتے ہوئے پاکستان کیلئے راہ ہموار کرتے رہے، جس میں انہیں امریکی سامراج کا تعاون بھی حاصل رہا کیوں کہ قیام پاکستان کے ٹھیک تین ماہ بعد اور سولہ دن پیشتر یکم مئی 1947 کو منصوبے کے مطابق جناح سے بمبئی میں دو امریکی نمائندوں ‘ امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی ایشیائی امور کے شعبہ کے سربراہ ایمنڈائے بیئر اور انڈیا میں امریکی سفارت خانے کے سکنڈ سیکریٹری تھا مس ای ویل نے ملاقات کی اور مستقبل کا پلان طے پا گیا کہ یہ ملک امریکی مفادات کے تحت سوویت یونین کے خلاف اہم کردار ادا کریگا۔ ‎اپنی حکمت عملی کے تحت برطانوی ماہرین برصغیر کے اقوام کے نفسیات کا بھی بغور جائزہ لیتے رہے کہ مستقبل میں جوان کے مفادات کے تحفظ اور اس علاقے میں انتشار پھیلاتے ہوئے سامراجی حربوں کیلئے راہ کونسی قوم ہموار کرسکتا ہے اس طرح ان کی نگاہِ انتخاب پنجابی قوم پر پڑ گئی۔ بعدازاں جب انگلستان جنگ عظیم کے بعد معاشی حوالے سے دیوالیہ پن کا شکار ہوا تو اس نے امریکی سرپرستی میں پناہ ڈھونڈ لی اور اقوام کو آزادی دینے کے نام پہ خطوں کو تقسیم سے دوچار کردیا تاکہ مستقبل میں بھی ان علاقوں میں وہ اپنے مفادات کے تحت فائدہ اٹھا سکے۔ اس طرح 14 اگست 1947 پنجابیوں کا پاکستان بنا اور 1948 میں بلوچ سرزمین کو انگریز سازش اور پنجابی منافقت کے تحت جبری طور پہ اس پنجابی ملک میں شامل کر لیا گیا۔بعد میں جب استعماری مفادات کے تحت پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تو یہ ریاست عالمی سامراج امریکہ اور اس کے حواری برطانیہ کی خدمت گزاری میں اس حد تک آگے بڑھ گیا کہ اب پوری دنیا اس کی شیطانیت، کمینگی اور سازشوں سے آگاہ ہے۔ آج بھی ساری دنیا میں امریکی مفادات کو تقویت پہنچانے کیلئے پاکستانی پھٹوفوج اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ آج بھی افغانستان اور عراق میں امریکی مفادات کو تقویت پہنچانے کیلئے پنجابی پیش پیش ہے حال ہی میں اسی بناء پر عراق میں مزاحمت کاروں نے دو آئی ایس آئی کے ایجنٹوں کا سر قلم کردیا۔ ‎بہرحال اس تاریخی بحث سے قطع نظر اب ہم پنجاب کے دانشوروں کے تذبذب پہ ایک نظر ڈالتے ہیں کہ وہ اپنی تحریروں میں پنجاب کے اس تاریخی کردار پہ وضاحتیں کرتے پھر رہے ہیں۔ احمد بشیر، فخر زمان، احمد سلیم، حنیف رامے نے ‘ پنجاب کا مقدمہ ‘ کی تحریر میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ” بیل چونکہ قدیم پنجاب کی علامت ہے اس لیئے آج بھی پنجابیوں کو بیل کہہ کر پکارا جاتا ہے” جبکہ دنیا میں بیل صرف فرمانبرداری کی علامت ہے جو مالک کےاشاروں پر آنکھیں بند کر کے کولہو پہ گھومتا رہتا ہے۔ اس لیئے تو شاید حنیف رامے کو فوراً اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ آگے چل کر اس نے لکھا ہے کہ ”پنجابی اپنی حقیقت کو پہچانیں اپنی شناخت تلاش کریں کہ وہ کیا ہیں اور تاریخ میں انہوں نے کیا کردار ادا کیا ہے”۔ ‎اگر ہم پنجابی کی تاریخی کردار پر بحث کریں تو یہ مزید کھینچتا جائے گا اسلیئے اب ہم آتے ہیں اس سوال پر کہ کیا بلوچ اپنی مرضی سے اس پنجابی کالونیل سسٹم میں شامل ہوا تھا؟ اس سوال کا جواب اسلئے نفی میں ہے کہ بلوچ سرزمین کو اپنے جغرافیائی سرحدی محل وقوع اور تجارتی و فوجی اہمیت کے حوالے سے ایشیاء میں ایک اہم ترین ریاست کی حیثیت حاصل رہی ہے اور اس سرزمین پہ ہزاروں سالوں سے آباد بلوچ قوم کا رشتہ اس سے اتنا گہرا ہے کہ اس سرزمین کی اہمیت کی وجہ سے باجبروت قوموں کی ہر وقت اس میں نظریں گڑھی رہی ہیں لیکن بلوچستان کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے تمام بلوچ وغیر بلوچ تاریخ دان اس بات کے معترف ہیں کہ اس قوم نے ہمیشہ اپنی سرزمین کی حفاظت و تقدس کیلئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا ہے بلوچ کی تاریخ مزاحمت کی داستانوں سے بھری پڑی ہے اگر ہم بلوچ تاریخ پر لکھی گئی تمام کتابوں کا مطالعہ کریں تو ان کا مختصر خلاصہ یہ نکلے گا کہ بلوچ سرزمین کی جغرافیائی و تجارتی اہمیت کی وجہ سے ہمیشہ سے بلوچوں کو اپنے سے زیادہ طاقتور و باجبروت ریاستوں سے ٹکرانا پڑا ہے۔ بلوچوں نے کبھی بھی آرام سے بیٹھ کر بزم آرائی نہیں کی ہے بلکہ میدان رزم کی گرم بازاری ہی انکے حصے میں آتی رہی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی زندگی مزاحمتی جنگ و جدل میں گزاری ہے بلوچ مزاحمتی تاریخ انتہائی طویل ہے لیکن یہاں ہم مختصراً صرف پنجابی ریاست کے خلاف بلوچ قومی مزاحمت کی تاریخ بیان کریں گے تاکہ یہ بات کھل کر سامنے آئے کہ بلوچ اپنی مرضی سے اس ریاست میں شامل نہیں ہوا تھا۔ ‎3 جون 1947 کو لارڈ ماؤنٹ بٹین وائسرائے ہند نے برصغیر کی تقسیم کے ساتھ تمام ریاستوں کی آزادی کا اعلان کیا تو 17 جون 1947 کو جناح کا یہ بیان اخباروں میں شائع ہوا۔ ” آئینی و قانونی طور پر برطانوی زیر تسلط تمام ریاستیں برطانوی اقتدارِ اعلیٰ کے ختم ہوتے ہی آزاد و خودمختیار ریاستیں ہونگی اور اپنے لئے اپنی پسند کے مطابق لائحہ عمل اختیار کرنے میں آزاد ہونگی”۔ ‎اسی طرح 4 اگست 1947 کو ایک کانفرنس زیرصدارت لاڑڈماؤنٹ بیٹن ہوئی اس کانفرنس میں میر احمد یار خان کے علاوہ جناح اور لیاقت علی خان نے بھی شرکت کی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ 15 اگست 1947 کو بلوچ ریاست کی وہ خودمختار حیثیت بحال ہوجائے گی جو کہ 13 نومبر 1839 سے قبل تھی۔ اس دوران خان قلات میر احمد یار خان، جناح اور لیاقت علی کے درمیان ایک معاہدے پر بھی دستخط ہوئے جو بعد میں ایک اعلامیہ کی صورت اگست میں شائع ہوا جسکا پہلا نقطہ یہ تھا کہ حکومت پاکستان ( جو کہ خود بھی دس روز بعد 14 اگست کو وجود میں آرہا ہے) ریاست قلات کو ایک خود مختیار ریاست کی حیثیت سے جس کے معاہداتی تعلقات براہِ راست برطانیہ سے ہیں اور جس کا منصب و مرتبہ ہندوستان کے دیگر ریاستوں سے مختلف ہے کوتسلیم کرتی ہے۔ ‎11 اگست 1947 کو بلوچ ریاست کی سابقہ آزاد حیثیت بحال ہوگئی۔ لیکن کالونیل ایجنٹ پنجابی نے پہلے ہی سے اس کو ہڑپ کرنے کا تہیہ کیا ہوا تھا۔ اکتوبر 1947 کو جناح نے خان قلات میر احمد یار خان کو کراچی بلا کر باقاعدہ دھمکی دی کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کردے ورنہ نتائج اچھے نہیں ہونگے بعد میں ستمبر اور دسمبر 1947 میں باالترتیب “دارالعوام” اور “دارالامراء” میں اس پر بحث ہوئی تو بلوچ عوام کے منتخب نمائندوں اور بلوچ قبائل کے سرداروں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی بھر پور مخالفت کی تو نہ صرف جناح خود سبی آئے بلکہ دوسری جانب سے پاکستانی فوج کے کوئٹہ میں موجود بریگیڈ کو قلات پر حملے کی تیاری کا حُکم بھی دے دیا گیا پھر سازش کے تحت خاران و لسبیلہ اور ازاں بعد 17 مارچ 1948 کو مکران کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا گیا اسی طرح یکم اپریل 1948 کو پاکستانی فوج کو قلات میں داخل ہوکر خان قلات کو نظر بند کرنے کا حُکم ملا تو خان نے الحاق کے معاہدے پر دستخط کرنے پر رضا مندی ظاہر کی اور یکم اپریل سے قبل 30 مارچ کو کراچی جاکر اس پہ دستخط کردیئے۔ ‎آغا عبدالکریم خان نے اس جبری الحاق کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے اپنے سات سو ساتھیوں سمیت افغانستان کا رُخ کیا اور اپنی حکمت عملی ترتیب دینے کے بعد مئی 1948 میں واپس آکر پاکستانی فوج کے خلاف چھاپہ مارا کاروائیاں شروع کیں لیکن سازشی پنجابی فوج نے چال چلی اور جنرل اکبر خان اور میر احمد یار خان کو قرآن پاک دیکر پہاڑوں میں آغا عبدالکریم خان کے پاس میڑھ بھیجا تو آغا صاحب قرآن کی حلف پہ پہاڑوں سے نیچے اُترے لیکن پنجابی چالبازوں نے قرآن کے حلف کو پسِ پشت ڈال کر آغا عبدالکریم خان سمیت دو سو بلوچ سرفروشوں کو گرفتار کر لیا اور آغا صاحب کو دس سال کیلئے جیل بھیجوایا 1955 میں اپنی رہائی کے بعد آغا عبدالکریم خان نے “استمان گل” کی بنیاد رکھ دی۔ ‎بلوچستان میں آزادی کیلئے جدوجہد کا تسلسل جاری رہا بلوچ قوم میں غلامی کے خلاف بے چینی بڑھتی رہی تو پنجابی فوج نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے 6 اکتوبر 1958 کو بلوچستان پر دوبارہ چڑھائی کردی۔ خان قلات کو اس محل سے گرفتار کر لیا گیا اور اس کے اگلے روز 7 اکتوبر کو پاکستان میں مارشل لا نافز کردیا گیا تو پورے بلوچستان میں پاکستان کے اس فوج کے خلاف بغاوت کردی گئی جس نے ریاست قلات کے مال خانہ و اسلحہ خانہ پہ ہاتھ صاف کیا تھا۔ اس دوران تین سو قبائلی و سیاسی عمائدین کو گرفتار کرلیا گیا اور کلی کیمپ میں اذیتیں دی گئیں۔ مری، بُگٹی، ساروان اور جھالاوان کے قبائلیوں نے پاکستانی فوج کے خلاف چھاپہ مار کاروائیاں شروع کردیں سب سے بڑا دستہ نواب نوروز خان زرکزئی کا تھا جس میں سات سو قبائلی شامل تھے اور نواب نوروز خان کی عمر اس وقت نوے سال تھی ایک سال تک پورے بلوچستان میں ان چھاپہ مار حملوں کی وجہ سے پاکستان فوج کو عزیت اُٹھانا پڑی آخر ناکام ہوکر اس نے وہی پرانی چال چلی اور اپنے چند حواری سرداروں کو قرآن پاک دیکر نواب نوروزخان کو میڑھ کے ذریعے پہاڑوں سے اُتارا۔ اور پھر اپنی حلف پہ قائم نہ رہتے ہوئے انہیں گرفتار کیا نواب نوروز خان اور اُن کے چند رفقاء کو عمر قید کی سزا دی گئی اور میر سبزل خان زرکزئی، میر بہاول خان موسیانی، میر ولی محمد زرکزئی، میر جمال خان نیچاری، میر مستی خان موسیانی، میر بٹے خان زرکزئی، میر غلام رسول نیچاری کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ جیل حکام کے مطابق ان جیالوں کو جب تختہ دار کی جانب لے جایا گیا اور جیل کی درودیوار ان کی ” بلوچستان زندہ باد ” اور “آزاد بلوچستان” کے نعروں سے گونج اُٹھے اور ساتھ ہی انہوں نے اپنے گلے میں قرآن مجید بھی ڈال رکھا تھا ان کا کہنا تھا کہ پنجابی حکمرانوں نے قرآن پر کئے اپنے عہد کو توڑا ہے لہذا قرآن کو بھی ہمارے ساتھ پھانسی دی جائے۔ ‎بعد ازاں میر علی محمد مینگل، میر نیک محمد مینگل، میر وزیر خان مری، میر نوریز خان بڈھانی مری اور دیگر ہزاروں بلوچ سرفروشوں نے 1967 تک پنجابی بزدل فوج کے خلاف چھاپہ مار جنگ کو جاری رکھا ‎اسی طرح 1970 کی دھائی میں پنجابی اور ایرانی حکمرانوں کی سازش کے تحت بلوچ سرزمین پر خون کی ہولی کھیلی گئی کیونکہ ان کو یہ خوف دامن گیر تھا کہ بلوچ قومی تحریک ایک مخصوص رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے اور ایشیاء پہ اس کے واضح اثرات مرتب ہونگے اور اس قوم کی سرزمین پر موجود وسائل سے انہیں ہاتھ دھونا پڑیں گے اسلئے 1973 میں اسی ہزار پنجابی فوج بلوچستان میں داخل ہوئی جن کو ایرانی فوج کی کمک بھی حاصل تھی اور ایرانی پائلیٹ جن کے پاس امریکاکے عطا کردہ کوبیٹ ہیلی کاپٹر بھی تھے بلوچ سرزمین پہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑےلیکن بلوچ قوم کے حوصلے پست نہیں ہوئے اور بلوچ مسلح جدوجہد پہ یقین رکھنے والے آزادی پسندوں نے 1973 سے 1977 تک پنجابی فوج کے خلاف چھاپہ مار جنگ کی، خود پنجابی حکمران اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اس چھاپہ مار جنگ میں انہیں اس قدر نقصان اُٹھانا پڑا کہ جس قدر انہوں نے انڈیا کے ساتھ تین جنگوں میں بھی نہیں اُٹھایا تھا۔ ‎اب ایک بار پھر ملٹی نیشنل کمپنیوں، گوادر کی اہمیت، بلوچ سرزمین پر موجود وسائل اور امریکی سامراج کی اس خطے میں دلچسپی کے باعث اور بلوچ سرزمین پر بلوچ قومی تحریک آزادی کے منظم طریقے سے آگے بڑھنے کی وجہ سے پنجابی کو خطرے کی بو محسوس ہو رہی ہے اور ایک بار پھر فوجی آپریشن کے ساتھ چھاؤنیوں کے قیام کا رٹہ زور پکڑ رہا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ کیا اب بھی بلوچ اس پنجابی کے ساتھ اس کی غلامی میں زندگی گزار سکتے جو خود غلاموں کا غلام رہا ہے؟ ‎اب فیصلہ بلوچ قوم کے ہاتھ میں ہے کہ وہ مستقبل کیلئے کونسی راہ متعین کرے گی۔ ‎پنجابی کی غلامی ۔۔۔۔۔۔ ؟ ‎یا قومی آزادئ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ‎ختم شُد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تحریر اس وقت دوستوں نے پمفلیٹ کی شکل میں شائعُ کی تھی جب بلوچ قومی تحریک کی حالیہ ایک بار پھر منظم شروعات ہوئی تھی، اس تحریر کو دوبارہ ہمگام میں شائع کرنے کا مقصد بلوچ قوم کے نوجوانوں تک حقیقی تاریخ پہنچانا ہے۔