پنجشنبه, اکتوبر 3, 2024
Homeخبریںشہید اسد حسن عرف کامریڈ بالاچ کی کچھ یادیں ۔ تحریر...

شہید اسد حسن عرف کامریڈ بالاچ کی کچھ یادیں ۔ تحریر : شیہک بلوچ

شہید اسد حسن عرف کامریڈ بالاچ کی کچھ یادیں ۔

تحریر : شیہک بلوچ

شہید اسد حسن کی پیدائش آواران تیرتیج میں محمد حسن نامی ایک شخص کے گھر ہوا۔ اس نے اپنی ابتدائی تعلیم تیرتیج میں ہی حاصل کیا۔غربت اور تنگ دستی کی وجہ سے مزید تعلیم کو جاری نہ رکھ سکا۔ اِس گاؤں نے شہید اسد سمیت اور کہیں قومی ہیروز کو جنم دیا ہے جس میں بی ایس او آزاد کے سیکرٹری جنرل شہید رضا جہانگیر ، شہید اسد جان اور بہت سارے جو آج تک پہاڈوں میں مختلف قسم کے درد تکلیف برداشت کرکے اپنے مادر وطن کے دفاع کیلئے جنگ لڑ رہے ہیں۔ ناکو جمیل جیسے عمر رسیدہ شخص سالوں سے دشمن کے عقوبت خانوں میں ہیں اور کہیں اب بھی اپنے وطن اور فیملی سے دور سمندر پار مشقت کی زندگی گزار رہے ہیں۔

اب آتے ہیں مختصراً شہید اسد حسن کی زندگی کی کچھ یادوں کے طرف۔

شہید اسد حسن ایک نہایت خوش اسلوب، مسقل مزاج ایک نڈر شخص تھا اس کی بہادری اور عمدہ کارکردگی کو مدنظر رکھ کر دوستوں نے اس کے نام کا چناؤ کامریڈ اسد حسن عرف کامریڈ بالاچ سے کیا۔ اُس نے کم عمری میں اپنے بلوچ وطن کے ساتھ پنچابی قبضہ گیریت اور بلوچ قوم کی مظلومیت و لاچاری کو دیکھ کر سَن 2008 میں باقاعدگی سے شہید نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔شہید نے آزادی پسند سیاسی پارٹی بی این ایم میں شمولیت اختیار کی اور کچھ وقت کے بعد شہید اپنی مخلصی اور دن رات محنت و صلاحیت کی وجہ سے پارٹی کے زمہ دار عہدے پر فائز ہوئے تو شہید نے بلا جھجک اس زمہ داری کو اپنا قومی زمہ داری سمجھ کر دشمن کے سامنے سینہ سپر ہو کر اپنے مظلوم قوم کےگھر گھر تک بلوچ و بلوچستان پر ناجائز قبضہ اور ظلم و بربریت کے داستان سنانے اور بلوچوں کو اپنے کارواں میں شامل کرنے کی تلقین کرتے رہے۔

جب دشمن اپنے سفاکانہ حرکتوں میں مزید مگن ہوکر بلوچستان کے ہر علاقے میں بےگناہ بلوچوں کے قتل و غارت اور سیاسی دوستوں کیلئے گراونڈ کو تنگ کرنے کیلئے قید و بند کے ساتھ ماورائے عدالت قتل نے شہید کو مزید مضبوط و مستحکم بنایا پیچھے ہٹنے کے بجائے دو قدم آگے بڑھے اور دشمن کا طرز عمل اختیار کرکے مسلح جدوجہد میں شامل ہوئے ۔

جنگ میں بھی شہید ایک بہترین صلاحیت کے مالک تھے اپنے سرمچاروں کے ساتھ ہمقدم رہے ہر وقت دوستوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ نہایت خوش مزاج اور وسیع ذہن کے مالک اور حاضر جواب تھے دشمن کے مقابلے کےلئے ہر وقت تیار اور بر سرے پیکار تھے یہی انتظار تھا کہیں پہ دشمن نظر آئے اور اس پر حملہ آور ہو جاؤں یہ سلسلہ آگے چلتا رہا دشمن نے بلوچ جہدکاروں کے خلاف بلوچ کُش پالیسیوں کو تیز کیا شہادتیں بڑھتی گئیں اور کامریڈ کی جنگی حکمت عملی اور بہتر کارکردگی کو دیکھ کر پارٹی نے بڑے ذمہ داریاں سونپی تو کامریڈ ایک انقلابی سوچ جزبہ سے سرشار تھا وہ پارٹی کے ہر فیصلے کو لبیک کرتا اور بہترین انداز میں نبھاتا رہا ہر جگہ دشمن پر ہر وقت نہایت سنجیدگی اور اپنے دوستوں کی سلامتی کو مدنظر رکھ کر حملہ آور ہوتا رہا ۔دشمن ریاست نے بلوچ قومی آزادی کے جدوجہد کو ختم کرنے کے ناکام کوششوں میں مصروف رہا اپنے چند بلوچ دلالوں اور غداروں کی مدد سے ایک سرنڈر ہونے کا ڈرامہ رچایا تو بہت سے کمزور دوست دشمن کے ظالمانہ جابرانہ پالیسیوں کو برداشت نہیں کرسکے اور دوستوں کے شہادتیں اور بلوچ وطن و قوم کی مظلومی کو پس پشت ڈال کر بلوچ قوم کی ننگ و ناموس کی پامالی میں ملوث اور سائل وساحل پر قبضہ گیر ریاست کے فوج کے سامنے ہتھیار پھینک کر ہمیشہ کےلئے بلوچ تاریخ میں بدنام ہوئے۔

اس دورانیے شہید کے فیملی کو دشمن بار بار ڈرا دھمکا کر تنگ کرتا رہا شہید کی ہمت کو پست کرنے کیلئے حتی کہ اس کے بھائیوں کو کہیں دفعہ گرفتار کرکے ٹارچر کیا گیا مسلسل انہیں شہید کو واپس لانے کا تاکید کرتے رہے لیکن شہید نے خونی رشتوں سے زیادہ قومی محبت کو ترجیح دیا ۔

کہیں دفعہ فوج نے شہید کے گھر پہ چھاپہ مارا آخر کار اپنی مکار دشمن نے تنگ آکر شہید کے گھر کو جلایا اِن تمام مشکلات اور تکلیف نے شہید کے حوصلہ کو پست کرنے کے بجائے مزید مضبوط کر دیا۔

شہید نے دشمن قبضہ گیر فوج کے تمام جابرانہ حرکت کو لات مار کر اپنے قومی آزادی کو ترجیح دی اور دشمن کو دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا ہے یہ بندوق میں نے بلوچ وطن کے دفاع کے لئے اٹھایا ہے یہ آخری گولی اورآخری سانس تک دشمن کے ساتھ لڑتا رہوں گا۔ یہ بات شہید کی ایک آڈیو ریکارڈ پر موجود ہے جب اس نے دشمن کے سامنے سرنڈر کردہ بھگوڑوں کے حوالے سے دیا تھا کہ جس کو جدھر جانا ہے جائے ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہم اپنے شہیدوں کے نقش قدم پر چلیں گے ہم نے ہر شہید کے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم اٹھایا ہے کہ ہم آپ کے خون کو قطعی رائیگاں نہیں جانے دینگے اور آپ کے مقصد کو پورا ہونے تک جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیا۔ اگر ہم خدا نخواستہ اپنے آبرو کو دشمن کے ہاتھ میں دیں تب ان شہیدوں کے روح اور ان کے فیملی والوں کو کیا جواب دیں گے۔

شہید نے پیغام میں اپنے دوستوں کے حوالے سے کہا تھا کہ ہمارے لئے اب جنگ آزادی کے سوا کوئی دوسرا راستہ ہے ہی نہیں اس غلامی سے نجات پانے کیلئے آجاؤ سب اس جنگ میں شامل ہو جاؤ ۔

اپنے فیملی سے مخاطب ہو کر شہید نے کہا تھا دعا کرو مجھے شہادت نصیب ہو کل تاریخ کے سامنے سرخرو رہوں اور میرے شہادت کے بعد میرے بندوق کو اٹھاؤ اور آزادی کے کارواں میں شامل ہوجاؤ اگر یہ نہیں کرسکے کم از کم اس طرح کا کوئی عمل نہیں کرو کہ بلوچ کاز کو کوئی نقصان پہنچے اس سخت مؤقف اور باتوں پر کمٹمنٹ کے ساتھ ڈٹے رہے گزشتہ سال اسی دن 23 مئی سال 2020 اپنے سرزمین بلوچستان کولواہ میں دشمن کے ساتھ دو بدو لڑائی میں اپنے ایک بہادر قومی سپاہی راشد عرف سوبین جان کے ساتھ جام شہادت نوش کرکے اپنے وطن و قوم کےلیے قربانی دے کر ہمشیہ کےلئے امر ہوگئے تاریخ میں ہمیشہ قوم و وطن کے شہیدوں کو سنہری الفاظ میں لکھا جائےگا ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز