Homeآرٹیکلزشہید صحبت خان و اسکے ساتھیوں کا بہادرانہ کردار، تحریر: مہراب مہر

شہید صحبت خان و اسکے ساتھیوں کا بہادرانہ کردار، تحریر: مہراب مہر

ہر قوم کی تاریخ کو پلٹ کر دیکھا جائے تو وہاں آپ وطن پر مرمٹنے والے ہزاروں سورماؤں سے لمحہ بہ لمحہ مخاطب ہوتے رہیں گے جو وطن کی آزادی و وطن کی دفاع پر اپنی جان نچھاور کرکے اپنی قومی شناخت و بقاء کو زندہ رکھنے میں اپنا اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں اور تاریخ میں لاثانی قربانیوں کی ایک باب رقم کرکے اپنی یادیں اس دنیا کے سپرد کر کے آنے والے نسل کے لیئے مشعل راہ بن کر امر ہوگئے اس دنیا میں بلوچ بھی بحثیت قوم اپنی آزادی و اپنی شناخت کو بچانے کے لیے دشمن سے گزشتہ کئی سالوں سے برسرپیکار ہے قدم قدم پر بلوچ سرزمین ان سورماؤں کے خون سے رنگی ہوئی ہے جب سے جہد آزادی کی نئی لہر نے بلوچ وطن کی دفاع کے لیئے قوم کے ہر فرد کو میدان جنگ کی طرف پیش قدمی پر آمادہ کیا ہے جہاں وطن پر خون بہانے کے لیے بلوچ تاریخ کے اوراق کو مزید جلا بخشنے میں اپنا بے لوث کردار ادا کر رہے ہیں تاکہ غلامی کے اس بدنما داغ سے چھٹکارہ حاصل کر سکیں بلوچ تاریخ میں انگریزی سامراجی نوآبادیت و بلوچ وطن پر قبضہ گیریت کے خلاف بلوچ ہر محاذ پر ڈٹے رہے گو کہ انھیں ناکامی ہوئی لیکن اپنی وطن کی دفاع پر جان نچھاور کرنا بلوچ روایات کا اولیں پہلو رہا ہے اور وہ عظیم انسان وطن کے لیئے خون بہا کر امر ہو گئے جو وطن کی آزادی کو اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے آج بھی بلوچ پیر کماش و بزرگ گلزمین کی آزادی کے لیئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان جنگ میں اپنی شجاعت کی داستان رقم کر رہے ہیں اور تاریخ میں اپنا کردار خون سے لکھ کر اپنی ذمہداریاں نبھا کر ہم سے جدا ہو رہے ہیں شہید صحبت خان شہید کریم داد شہید اشرف شہید عبدالکریم ایسے ہی بزرگ و نوجوان تھے جو وطن کی آزادی کے لیے دشمن سے دو بدو لڑ کر اپنی جان قربان کرگئے شہید صحبت خان جو اب اپنی عمر کی دوسری پیڑی کے آخر تک پہنچ چکے تھے نوجوانی کی عمر میں تحریک سے وابستہ ہوئے تھے وہ 1973 سے لیکر اپنی شہادت کے دن تک ثابت قدمی سے اپنے فکر پر ڈٹے رہے وہ ایک سپاہی کی حیثیت سے کوہلو کے علاقے نساؤ جھبر کے پہاڑوں میں وطن کی آزادی کے لیے اپنا فرض نبھاتے چلے گئے وہ مختلف محاذوں پر اپنی شجاعت و بہادری سے اپنی داستان رقم کرتے رہے وہ آزاد پنچھی کی طرح اپنے وطن میں آزادانہ نقل و عمل کرتے رہے گو کہ وطن غلامی کی زنجیروں میں جھکڑا ہوا تھا لیکن وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ آزاد وطن کا باسی تھا یہی وجہ تھی کہ وہ بندوق اٹھا کر پہاڑوں میں مورچہ زن رہے اور مرتے دم تک وطن کی دفاع کرتے رہے افغان جلاوطنی کے بعد تحریک کمزور پڑ گئی اور کیمپس برائے نام رہ گئے اور زیادہ تر لوگ جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے شہید صحبت خان تحریک آزادی سے جڑے جلاوطن ساتھیوں کا منتظر رہا افغان جلاوطنی کے بعد جب تحریک کی سنگ بنیاد رکھی گئی تو 1996 کو وہ پھر سے آزادی پسند ساتھیوں کے ساتھ کیمپ نشین ہوا وہ بحثیت ایک سپاہی کے اپنی قومی ذمہ داریاں نبھاتا رہا اور 1997 تک وہ چمالانگ کے کیمپس میں بحثیت سپاہی کام کرتا رہا اور 1998 کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ جھبر نساؤ ایک علیحدہ کیمپ میں منتقل ہوئے اور بحثیت کیمپ کمانڈر ذمہ داریاں سنبھال لی وہ نواب خیربخش مری کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے وہ علاقے میں لوگوں کو تحریک میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے جرگہ منعقد کرتے اور لوگوں کو وطن کی غلامی سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا درس دیتے وہ علاقے میں لوگوں کے فیصلے انصاف ایمانداری کے ساتھ کرتے تھے لوگوں میں ایماندار و انصاف پسند کی حیثیت سے اسکی پہچان بن گئی لوگ اسکے ہمنوا بنتے گئے وہ علاقے میں لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر دشمن کے خلاف کام کرتے رہے
اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ کئی محاذوں پر دشمن پر حملہ آور ہوتے رہے وہ بہادری کے ساتھ دشمن کو ہر محاذ پر شکست دیتا رہا وہ میدان جنگ میں اپنے تین ساتھیوں اشرف عرف ڈولان کریمداد عرف ٹکری اور عبدالکریم عرف زنڈا کے ساتھ جام شہادت نوش کر اپنے خون سے سرزمین کا قرض ادا کر کے امر ہوگئے شہید اشرف عرف ڈولان جو کہ 2012 کو بلوچ لبریشن آرمی سے منسلک ہوا تھا وہ شہید صحبت خان کے کیمپ میں اپنے قومی فرائض انجام دے رہا تھا وہ بہادر محنتی ایماندار نوجوان تھا جو نوجوانی میں تحریک سے وابستہ ہوکر غلامی کے خلاف ہر محاذ میں پیش پیش رہا تھا شہید اشرف عرف ڈولان و شہید عبدالکریم ایک ساتھ تحریک سے وابستہ ہوئے تھے شہید عبدالکریم جنگی ہنرمندی سے واقفیت رکھنے والا بہادر بلوچ فرزند تھا جو دلیری و بہادری کے ساتھ صف اول میں ہر محاذ پر ڈٹا رہا اور بہادری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرتا رہا وہ اور شہید اشرف اپنی نوجوانی کے دنوں میں تحریک سے وابستہ ہوکر قومی غلامی کے خلاف کمربستہ ہوئے وہ اپنی زندگی کو وطن کے نام کرکے تاریخ میں سرخرو ہونے کے لیے دشمن کو ہر محاذ پر شکست دینے صف اول کے سپاہی کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرتے رہے اور آخری وقت میں دشمن سے دوبدو لڑ کر جام شہادت نوش کر گئے شہید عبدالکریم شہید صحبت خان کے دست راست ساتھی تھے اس نے کم عمری میں اپنی صلاحیت و قابلیت کی بنا پر ساتھیوں میں اپنا منفرد مقام بنانے میں کامیاب ہوئے شہید کریمداد عرف ٹکری جو کہ 2000 میں بلوچ لبریشن آرمی کے پلیٹ فارم سے قومی آزادی کے لیے میدان جنگ کا حصہ بنے وہ ایک فرض شناس بہادر و ایماندار ساتھی کی حیثیت سے ہر محاذ پر اپنا قومی فرض نبھاتے رہے وہ 2000 سے لیکر تاں اپنی شہادت کے دن تک مستقل مزاجی کے ساتھ آزادی کے لیے ہر تکلیف کو خندہ پیشانی کے ساتھ سہتے رہے اور وطن کے لیے ہر محاذ پر اپنا خون بہاتے رہے وطن کے یہ عظیم فرزند جس پر آج بلوچ وطن نازاں ہے جو 2015 اپریل کے مہینے کی صبح کو جب دشمن نے نساو جھبر کے پہاڑوں میں شہید صحبت خان کے کیمپ کا گھیراؤ کیا تو شہید صحبت خان نے واکی ٹاکی پر پر عزم لہجے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم دشمن کے گھیرے میں ہیں اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم وطن کا قرض ادا کریں وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ آخری گولی تک لڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں وہ شہید عبدالکریم و دیگر ساتھیوں کو نکلنے کے لیے کہتا ہے لیکن ساتھی ایک ساتھ لڑنے کو ترجیح دیتے ہیں اور بہادری کی داستان رقم کرتے ہیں وہ شہید محراب خان و بلوچ وطن کے دیگر شہداء کی طرح دشمن کے ساتھ کئی گھنٹوں کی لڑائی کے دوران انکے خون کے چھینٹے مادر وطن میں جذب ہوکر انکی دیدہ دلیری کی داستان بیان کر رہے تھے بادل شہیدوں کے خون سے سرخی مائل ہو کر وطن کے ایسے سورماؤں کی داستان کا چشم دید گواہ بن رہے تھے وہ چاروں ساتھی دشمن کو نقصان دینے میں بھی سفل رہے تھے اور اپنے جانثارانہ کردار ادا کرتے ہوئے مادر وطن کی دفاع میں شہادت کا تاج پہن کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوداں رہے انکے دو ساتھی شدید زخمی ہو کر دشمن کے گھیراؤ کو توڑ کر غازی بننے میں سفل رہے وہ شہید صحبت خان شہید کریم شہید اشرف شہید کریمداد کی دلیری و بہادری پر نازاں تھے جو بہادری کے ساتھ لڑ کر دشمن کے سامنے سربسجود ہونے کے بدلے موت کو بہ خوشی قبول کرکے دشمن کو اپنی آزادی غیرت ننگ ناموس و روایت پر مر مٹنے کا سبق دیتے ہیں اور تاریخ ایسے ہی عظیم کرداروں کی پہچان بنکر قوم کے لیے مشعل راہ بن جاتی ہے جو کہ قومی آزادی کے لیے گلزمین میں مدفون ہیں یا وطن کی دفاع کے لیے ہر وقت اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر وطن کی آغوش میں سونے کے منتظر ہیں.

Exit mobile version