Homeآرٹیکلزشہید مظفر بھٹو کا اپنی اہلیہ کے نام خط

شہید مظفر بھٹو کا اپنی اہلیہ کے نام خط

مظفر بھٹو سندھ کے نوجوان قوم پرست رہنماء جنہیں خفیہ اداروں نے ایک برس سے زیادہ عرصہ غائب کرکے اپنے ظلم کا نشانہ بنایا تھا وہ جامشوروپاور ہاؤس میں سب انجینئر کی پوسٹ پر کام کر رہا تھا اوروہ جئے سندھ متحدہ محاذ کے مرکزی خازنچی تھے۔ انہیں سندھ میں ریلوے لائنوں، بجلی کی ہائی ٹرانسمیشن لائنوں اور گیس پائپ لائنوں کو دھماکے سے اڑانے کے الزامات کے تحت خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا۔ وہ آج کل سینٹرل جیل حیدرآباد میں قیدی ہیں۔ انہوں نے جیل سے اپنے رفیقہ حیات صائمہ بھٹو کو ایک خط لکھا۔ اس سندھی خط کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے، کہ پاکستاں کی خفیہ ادارے کتنے بے رحم اور سفاک ہیں اور ان کے پاس انسان اور انسانیت کے کیا معنی ہوتے ہیں۔
نوٹ: مظفر بھٹو نے یہ خط تب لکھا جب وہ پہلے بار آئی ایس آئی کے ٹارچر سیل سے رہا ہوکر سینٹرل جیل حیدرآباد میں قید تھے۔ اس کے بعد مظفر بھٹو کے ایک مرتبہ پھر 24 فروری 2011ع کو آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے اغواء کیا اور تشدد کے بعد ان کی لاش 22 مئی 2012ء کو حیدرآباد کے قریب پھینک دیا گیا۔
پیاری صائمہ
امید ہے کہ آکاش، حنا اور تمام گھر والوں کے ساتھ تم بھی خوش و خرم ہوگی۔ میں بالکل ٹھیک ہوں میری صحت بھی اچھی ہے کوٹڑی میں ادا سکندر کے ساتھ تفصیلی ملاقات ہوئی۔ آپ سے ملنے کی بہت تڑپ بھی تھی فون کی سہولت نہ تھی ورنہ آپ سے فون پر بات چیت کرلیتا ہم پر ابھی تک بہت سختی کی جارہی ہے ہماری ہر حرکت پر نظر رکھی جارہی ہے۔ یکم دسمبر 2006ء کو تم نے مجھ سے مجھ پر ہونے والے تشدد کے متعلق پوچھا تھا وہ آج مفصل طور پر لکھ رہا ہوں اسے محفوظ رکھنا۔
مجھے یکم رمضان یعنی 6 اکتوبر 2005ء کو بدقسمتی سے ایک دوست کے گھر سے گرفتار کیا گیا گرفتاری کے وقت ایس پی لیول کے افسران کے پاس جو بید ہوتی ہے مجھے اس سے بڑی شدت کے ساتھ پیٹا گیا اور نام پوچھتے رہے میں نے اپنا تعارف امیر علی کے نام سے کروایا آدھا گھنٹہ تشدد کرنے کے بعد میری آنکھوں پر پٹی باندھی گئی اور کراچی کے ایک ٹارچرسیل میں لے گئے وہاں مجھ پر مسلسل لاٹھیوں کی بارش کی گئی اور اس وقت تک مارتے رہے جب تک تھک نہیں جاتے اْس کے بعد وقفہ وقفہ سے کل 92 عدد کوڑے دو ہاتھوں کی پوری قوت کے ساتھ مارے گئے اس طرح مارے گئے جس طرح دھوبی کپڑوں کو اُٹھا اُٹھا کر تختے پر مارتا ہے۔ ریڑھ کی ہڈی پر ضربیں لگنے کے سبب جسم کانچلہ حصہ سْن ہو کر رہ گیا۔ اور اس کے بعد یوں ہوا کے مجھے چھوٹے یا بڑے پیشاب کے آنے کا پتہ ہی نہیں چل پاتا اس کے بعد ایک دن میری ٹانگوں کو مخالف سمت میں کھینچا گیا جسے’’چیرا‘‘ کہتے ہیں۔ اس ’’چیرے‘‘ کی کاروائی شروع ہوئی میں بے ہوش ہوگیا۔ میں رات کو تراویح کے وقت ہوش میں آیا تو میری شلوار خون، پیشاب، فضلہ سے گندی تھی۔ مجھے شلوار دھونے کو کہا گیا لیکن خون تھا کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا مرہم پٹی کرنے کے بعد مقعد میں تیزاب ڈال دیا گیا تھا مجھے یوں لگ رہا تھا کہ اس عذاب کو میں برداشت نہیں کر پاؤں گا۔ میں یوں تڑپ رہا تھا جیسے مچھلی پانی کے باہر تڑپتی ہے میں کمرے میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک تڑپتا، لوٹتا، کروٹیں بدلتا رہا اور چیختا چلاتا رہا وہ ظالم خوشی سے قہقے مارتے رہے اور شور بھی کرتے رہے اس کہ بعد ایک اسپرے کیا گیا۔ جس سے تکلیف میں کچھ کمی واقعہ ہوئی اور میں نے تھوڑا سکون کا سانس لیاتو صابن ملے پانی کے چار گلاس بھر کر میری ناک اور منہ میں ڈالا گیا مجھے جونہی قے آئی انہوں نے میرے منہ کو بند کرلیا جس سے پھر بقیہ تمام وقت میرے ناک سے قے ہوتی رہی مجھے لگا کہ یہ عذاب گزشتہ عذابوں سے بدتر ہے اس کے بعد ایک مرتبہ انہوں نے روشندان میں رسہ باندھا اور اسے میری ہتھکڑیوں میں گرہ دے کر مجھے اوپر لٹکا دیا میرا زیادہ وزن ہونے کے سبب مجھے اتنی تکلیف ہوئی کہ میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا اور میں اتنے زور سے چیخنے لگا کہ میں اپنی پوری زندگی میں نہیں چیخا ہوں گا اور نہ کسی کو چیختے ہوئے سنا تھا۔
میری پیاری!
اس کے بعد مجھے تین دن تک کھڑا رہنے کی سزا دی گئی ان تین دنوں میں میں مسلسل کھڑا رہا اور مجھے نیند بھی نہ کرنے دی گئی صرف بے ہوشی کے وقت لٹا دیتے تھے یا پھر سحری اور افطاری کے وقت ، میری حالت دگر گوں تھی تشدد کے سبب سوجے ہوئے گورے بدن پر لاٹھیوں کے نشان چیتے کی دھاریوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے میں انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوتا تھا ہاتھوں میں ہتھکڑیوں اور پیروں میں بیڑیوں کی زنجیروں کو دیکھ کر میرا دل خوشی سے پھولے سے نہ سماتایوں خوش ہوتا تھا جیسے کوئی عورت اپنے زیور پہن کر بہت خوش ہوتی ہے میں خوشی کے مارے دیوانہ وار زنجیروں کو چومنے لگتا۔
یہ کراچی کے تین دن ، تین برسوں کے برابر لگے میں اکثر بے ہوشی میں آتا تو اپنی پیاری امی سے مخاطب ہوتا کہ میری پیاری ماں!تم کہاں ہو؟ میرے لئے خدا سے سوال کرکہ وہ مجھے اْٹھالے۔ میری جان! میں اس حالت میں تمہیں اس دعا کے لئے نہیں کہتا تھا کیوں کہ تمہیں یہ کسی بھی حالت میں قبول نہ ہوتا۔ کراچی میں تین دنوں تک بے پناہ تشدد اور پھر بڑی بڑی ترغیب و تحریص مجھے کمزور نہ کر سکیں میرے سامنے ثبوت لائے گئے لیکن میں انہیں جھٹلا کر رد کر دیا۔ اسکے بعد مجھے حیدرآباد جیل لایا گیایہا ں ایک افسر نے کہا ’’ تم نے کراچی میں اپنا تعرف نہیں کروایا اور ہم تمہاری یہ خواہش بالکل پوری نہیں کریں گے کہ تمہیں ختم کردیا جائے لیکن ہم تمہیں اس حالت میں پہنچادیں گے کہ مردوں سے بھی بد تر ہو جاؤ گے۔ پر اُسی نویت کا تشدد شروع کردیا گیاپھرتین دن تک کھڑا کرکے سونے نہیں دیا گیا مسلسل رت جگے اور کھڑے رہنے کے سبب میرے پاؤں سوجھ گئے اور میری ذہنی حالت پاگلوں جیسی ہو گئی تھی کچھ دنوں کے بعد بیٹھنے کی سہولت دی گئی مجھے 12 اکتوبر کے دن دوپہر12 بجے بتایا گیا کہ آج صائمہ (مظفر کی بیوی) اور حنا نے پریس کلب کے سامنے خود کو جلا لیا ہے۔ تم انکی زندگی کے لئے دعا مانگو وہ دونوں LMU (لیاقت میڈیکل یونیورسٹی) کے برننگ وارڈ میں داخل ہیں اور انتہائی سیریس کنڈیشن میں ہیں، میں چھ دنوں کے مسلسل رات جگوں اور کھڑے رہنے کے عذاب کے باوجود مزید دو راتیں اور ایک دن سو نہ سکا آپ کی پریشانی نے میری نیند ختم کردی میں اپنی تمام تکالیف بھول گیا یہ ذہنی عذاب میرے لئے گذشتہ تمام تشدد سے بڑھ کر تھا کیونکہ انسان اپنی ہر تکلیف برداشت کرسکتا ہے لیکن اپنے پیاروں کی تکلیف برداشت نہیں کرسکتا۔ اسکے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ تمہیں کتنی تکلیف اٹھانی پڑی ہوگی۔ کیونکہ تمہیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ ظالم میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟اکتوبر کی شام کو مجھے ایک افسر کے سامنے پیش کیا گیا اسنے کہا ’’ یہ موبائل فون لو اور اپنی بیوی سے بات کرو، اسے احتجاج کرنے سے منع کرو وہ میڈیا میں بہت شور شرابہ کر رہی ہے‘‘ میں یہ بات سن کربہت خوش ہوا اور میری تمام پریشانیاں، دکھ
اور تکلیفیں ختم ہو گئیں میں سمجھ گیا کہ اگر تم نے خود سوزی کی ہوتی تو میڈیا میں احتجاج کیسے کر سکتی تھیں؟ میں نے فون پر بات کرنے سے انکار کردیا تمام تشدد کرنے والے اور افسر بالکل بے بس ہو گئے کیوں کہ انکا غیر انسانی ، وحشیانہ تشدد اور تمام بڑی لالچیں بھی مجھے جھکا نہ سکے وہ میرے مقصد اور عزم سے بہت خوفزدہ تھے میں نے انہیں اپنے تمام کارنامے بتائے اور کہا کہ میں یہ سب میڈیا کے سامنے قبول کرنے کو تیار ہوں۔ انہوں نے میرے اوپر بہت تشدد کیا اور کہا کہ کورٹ میں تم یہ سب چیزیں قبول نہیں کرو گے بلکہ ضمانت پر رہا ہوکر ایک نارمل اور عام سی زندگی گزارو گے ہم تمہیں تم پر داخل کیئے گئے کیسوں میں رعایت دیں گے میرے انکار کرنے اور رعایتیں قبول نہ کرنے پرانہوں نے پر مجھے تشدد کا نشانہ بنایا۔ 12دنوں تک جسمانی تشدد کرنے کے بعد ہاتھ روکا گیا لیکن زخموں کے لئے کوئی دوائی نہیں دی گئی درد اور زخم آہستہ آہستہ کم ہوتے گئے نومبر، دسمبر اور جنوری میں عذاب کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا انہوں نے ایئرکنڈیشن کے ذریعے مجھے شدیدسردی پہنچانی شروع کی۔ سونے کے لئے ایک چٹائی اور پتلا سا کمبل دیا گیا سردی اتنی شدید تھی کہ جتنی کوہِ مری میں ہوتی ہے، دن 12 بجے ایئرکنڈیشن چلاتے اور اگلے دن صبح 7 بجے بند کرتے۔ میں پورا دن اور تمام رات سردی سے کپکپاتا رہتا۔ شدید سردی میں اپنے آپ کو تسلی دیتا ’’ یار مظفر! خواہ مخوا پریشان ہوتے ہو کچھ دیر کے بعد پیشاب کی تکلیف ہوگی اور باقی تمام تکلیفیں بھول گیا‘‘۔ وہ مجھے دو مرتبہ یعنی دن کے 11بجے اور رات کے 11 بجے پیشاب کرنے دیتے۔ بقیہ وقت اگر مجھے پیشاب لگتا تھا تو مجھے برداشت کرنا پڑتا تھا۔ فروری اور مارچ میں مچھروں کی لشکر کو کہیں سے گھیر کر کمرے میں چھوڑ دیا جاتا تھا میں 24 گھنٹوں میں صرف 5 گھنٹے سوتا۔ اکثر امی ، حنا اور آکاش کو یاد کیا کرتا تھا لیکن تجھے بالکل یاد نہیں کرتا تھا۔ کیونکہ تمہاری یاد آتے ہی میں ایک بے پایاں عذاب میں مبتلا ہوجایا کرتا تھا جو کہ میری برداشت سے باہر تھا اس لئے میں کوشش کرتا کہ تم یاد نہ آؤ۔اپریل، مئی، جون، جولائی، اگست اور ستمبر میں تھرموسٹینڈکنٹرول کے ذریعے گرمی دینے کا سلسلہ چلتا رہا ان مہینوں میں گرمی کو اتنا بڑا دیتے تھے کہ زنجیریں آگ کی طرح گرم ہوجاتی تھیں اور میرے پورے بدن کی جلد پھٹ گئی۔ دو مہینوں تک بدن کے نچلے حصے سے خون آتا رہا میری شلوار اور بستر خون سے سرخ ہوجاتے شدید کھجلی اور درد میں مبتلا ہوکر دن رات آرام کے لئے ترستا رہتا۔ دو راتیں اور ایک دن رت جگے کے بعد تھوڑی سی نیند نصیب ہوتی میرا لباس زیادہ تر وقت خون میں ڈوبا ہوا ہوتا۔ گرمی اور پسینے کے سبب بستر اور لباس سے گندی بو اٹھتی رہتی۔ وہ مجھے دو دنوں کے بعد شلوار دھونے کی اجازت دیتے تھے۔ بخار اتنا زور پکڑتا اور پسینے کی کثرت کے سبب استری کے جلے ہوئے کپڑوں کی سی بو اٹھنے لگتی اور میں اپنے بالوں کو چھو کر اپنے بخار کی شدت کم یا زیادہ ہونے کا اندازہ کرتاشدید بخار کے سبب میں پانی پیتا کم اور جسم پر ملتا زیادہ تاکہ ایسا نہ ہو کہ بخار کی زیادتی کے سبب میرے دماغ کی رگ نہ پھٹ جائے۔ویسے بھی پانی کم دیا جاتا تھا۔ رمضان کے مہینے میں کچھ آرام ملا اور دوائیں بھی زبردستی کھلائی جاتی تھیں کیونکہ میری حالت بہت خراب ہوچکی تھی۔ اتنا بخار میں نے زندگی بھر نہیں دیکھا تھا ان تکالیف کے دنوں میں مجھے جسمانی تشدد کی تکلیف کم دیکھائی دیتی۔ کیونکہ جسمانی تشدد میں تکلیف کچھ وقت کے لئے ہوتی لیکن گرمی ، بخار، خارش، خون بہنے اور درد کی تکلیف 24گھنٹوں ہوتی۔ ایک خشک روٹی اور تھوڑی سی دال کبھی مرغی کی ایک پتلی بوٹی کے علاوہ صبح کو ایک عدد پراٹہ اور ایک کپ چائے ملتی تھی۔ چائے عجیب و غریب قسم کی تھی دود پتی نہ سلیمانی، مسلسل ہتھکڑیاں پہنے کے سبب ہاتھ اکثر سن رہتے اور بازؤں کی ہڈیوں میں شدید درد رہتا۔ زنجیروں کے سبب ہمیشہ ایک کروٹ
سونا پڑتا تھا بات چیت کرنے ، کھڑے ہونے، دیکھنے اور کھانسنے پر پابندی تھی۔ اکثر گالیوں سے نوازا جاتا مکوں اور لاتوں سے خاطر تواضع کی جاتی تھی۔
مزید پھر کبھی لکھوں گا۔

تمہارا اپنا مظفر بھٹو

Exit mobile version