جرمنی (ہمگام نیوز)تیس جنوری کو ڈاکٹر منان بلوچ اور شہدائے مستونگ بابو نوروز بلوچ، حنیف بلوچ، اشرف بلوچ اور ساجد بلوچ کی پانچویں برسی کے موقع کے بی این جرمنی زون کی جانب سے ایک آن لائن ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ پروگرام کے مہمان خاص ڈاکٹر نسیم بلوچ اور کمال بلوچ تھے۔ اس میں جرمنی زون کے کارکنان نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
ریفرنس سے خطاب میں بی این ایم ڈائسپورا کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر نسيم بلوچ نے ڈاکٹر منان بلوچ اور ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر منان کی زندگی، فہم، طریقہ کار، جدوجہد، واقعات اور کارکردگی کی ایک لمبی فہرست ہے، جس پر کئی باب لکھے اور بیان کئے جاسکتے ہیں۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر منان کا کردار بہت ہی اہم تھا لہٰذا ان کی شہادت بہت بڑا نقصان ہے۔ یہ جدوجہد کے اس فیز میں ایک بڑے نقصانات میں سے ایک ہے۔ یہ نقصان اور واجہ غلام محمد کی شہادت کے برابر کے نقصان جیسا ہے۔ ان دو دہائیوں میں کئی نامور شخصیات شہید ہوئی ہیں؛ نواب اکبر خان بگٹی، نوابزادہ بالاچ مری، ڈاکٹر خالد، شہید غلام محمد اور ڈاکٹر منان جان۔ ان شخصیات نے کئی لوگوں کو متاثر کیا۔ ان کی قربانی نے ہمیں ایندھن فراہم کی اور ہم وہ ایندھن استعمال کرکے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کی شہادت بہت بڑے نقصان ہیں لیکن جس ڈگر پر واجہ غلام محمد اور بعد میں ڈاکٹر منان جان بلوچ قومی جہد کو آگے لے جا رہے تھے، اس سے میں یہ کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کروں گا کہ سب سے بڑا نقصان ان دو رہنماؤں کی شہادت سے ہوا ہے۔ میری اس رائے سے بہت سے دوست یا دوسری جماعتیں شائد اتفاق نہ کریں۔ شائد کوئی یہ سمجھے کہ میں ان کو اس لئے برتر مانتا ہوں کہ ان کا تعلق بی این ایم سے تھا لیکن نہیں۔ کیونکہ آپ کسی بھی سیاسی کارکن سے پوچھیں تو وہ ان کے کردار اور طریقہ کار کے اتنے پہلو بیان کرے گا کہ ہم قائل ہوجائیں گے کہ یہ دو شخصیات واقعی بے نظیر ہیں۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ جو طریقہ کار واجہ غلام محمد اور منان جان نے دیا ہے، اس سے ایک ایسی توانائی اور تبدیلی پیدا ہوئی ہے جو دوسرے لیڈر نہ دے سکے۔ ڈاکٹر منان کے پاس یہ ہنر تھی کہ وہ جانتے تھے کہ کس فیلڈ یا کس مزاج کے لوگوں سے کس طرح ڈیل کرکے ڈسکشن کرنا ہے۔ وہ دوسری جماعتوں کے ساتھ تعلقات اور مسائل پر بحث اور آپسی یعنی اپنی تنظیم میں بحث مباحثہ اور اختلاف رائے رکھنے کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بی این ایم میں جمہوریت اور جمہوری مزاج دوسری جماعتوں سے زیادہ ہے۔ ہم بی این ایم میں اختلاف رائے رکھنے کی موجودگی اور اس کی اہمیت کو بھی دیکھ رہے ہیں۔
وہ اپنے کردار سے اپنے آپ کو منوانے کا درس دیتے تھے۔ جب ان کا نام ان کے بھائی شہید نورالحق کے ساتھ جوڑا جاتا تھا، تو وہ کہتے تھے کہ شہید کا اپنا کردار تھا، وہ اپنا حصہ ادا کرگئے اور ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔
آج ہم اگر اپنے آپ کو ڈاکٹر منان اور واجہ غلام محمد کا پیروکار گردانتے ہیں تو ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنا چاہیئے اور عملا متحرک کردار ادا کرکے اس تحریک میں اپنا حصہ ادا کرناچاہیئے۔ یہ ہر بلوچ پر قرض ہے۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر منان جان صاحب علم اور صاحب مطالعہ تھے اور اکثر معاملات پر دسترس رکھتے تھے۔ وہ علاقائی اور عالمی حالات اور سیاست پر طویل بحث کرکے مجلس اور میٹنگ میں موجود لوگوں کو حالات سے باور کراتے تھے کہ بلوچستان کی جہد آزادی کس طرح جائز، عالمی اصولوں کے مطابق اور قابل عمل ہے جس سے ہم آزادی حاصل کرسکتے ہیں۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ اس طرح کے رہنماؤں کو کسی طریقے سے جلد ہی قتل کرے تاکہ وہ عوامی آگاہی اور موبلائزیشن کے عمل کو سست کرسکے۔ ہم اس دشمن کے سامنے بحیثیت قوم آج بھی کھڑے ہیں۔ ہماری بھی ایک طاقت ہے۔ ان جیسے رہنماؤں نے ہمیں طاقت اور ایندھن دی ہے کہ ہم منزل کے قریب تر جا سکیں۔ ہمیں عملی طور پر میدان میں حاضر ہونا چاہیئے۔
بی این ایم کے کمال بلوچ نے اپنے خطاب میں شہید منان جان اور ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک فلسفے پر اپنی زندگیاں قربان کی ہیں۔ یہ فلسفہ آزاد بلوچستان کا ہے۔ بلوچستان کی جدوجہد میں رہنماؤں کی قربانی کا فلسفہ آج کا نہیں بلکہ خان مہراب خان سے شروع ہوئی ہے۔ وہ دشمن کے سامنے طاقت کم ہونے کے باوجود بھی اپنے جدوجہد سے منحرف نہیں رہے بلکہ سروں کی قربانی سے اس جدوجہد کو زندہ رکھا ہے۔ بلوچ قیادت کی قربانی اُسی قربانیوں کا تسلسل ہے۔ اسے ہم برقرار سکتے ہیں جب ہم اپنی طاقت کو مزید مضبوط کریں۔ ہم اسی فلسفے کے تحت دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔ جب ہم قربانی سے پس و پیش نہیں کرتے تو کامیابی ہماری ہوگی۔ اس طرح ہم جدوجہد کو زندہ اور دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔
کمال بلوچ نے کہا کہ ہمیں یہ جاننا اور سمجھنا چاہیئے کہ ڈاکٹر منان جان اور دوسرے شہدا نے کس مقصد کیلئے قربانی دی تھی۔ ہمیں جاننا چاہیئے کہ اس جدوجہد میں ہمارا کردار کیا ہے اور ہم کس طرح اپنی جدوجہد کو آگے لے جاسکتے ہیں۔ آج ہمیں ان شہدا کی نظریہ کو آگے لے جانے کی ضرورت ہے۔ اسی کے تحت ہمیں آزادی حاصل کرنا ہے۔
آج حالات ہمارے سامنے واضح ہیں کہ دنیا کی نظریں ہماری سرزمین پر ٹکی ہوئی ہیں۔ ہم دیکھیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ دشن کو ہم کیسے سمجھ رہے ہیں؟ اس وقت یہ اہم ہے کہ ہم منان جان اور پارٹی فلسفہ کو آگے لے جائیں۔ اس کے تحت غلام محمد، ڈاکٹر منان، رزاق گل، رضا جہانگیر، آغا عابد شاہ اور آج بانک کریمہ بلوچ نے قربانی دی ہے۔ ہمیں ان کی قربانی کی بھی ایک نظریہ کے تحت دیکھنا چاہیئے۔ ڈاکٹر منان نے اپنی پوری زندگی انقلابی سیاسی کارکن کے طور پر گزارا۔ انہوں نے ہمیں قائل کیا بلکہ موٹیویٹ کیا اور ہمیں سمجھایا کہ ہم اپنے شہدا اور ان کے کردار کو یاد رکھیں اور یہ سوچیں کہ انہوں نے کیوں یہ قربانی دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہید اشرف ایک انتہائی مہربان لیڈر تھے۔ وہ بی ایس او متحدہ کے مرکزی کمیٹی کے ممبر تھے۔ انہی کی محنت کی وجہ سے بلوچستان میں ایک دیرینہ مطالبہ بی ایس او کی یکجہتی کی صورت میں ملا۔ وہ بی ایس او آزاد کے بانی ممبران میں سے ایک ہے۔ ان کا ایک وسیع فلسفہ ہے۔ بلوچستان میں سیاسی جمود کو انہوں نے ہی تھوڑا۔
کمال بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر منان اور ساتھیوں کی محنت اور جدوجہد کی وجہ سے موجودہ بنیاد رکھی گئی ہے۔ ہمیں ایک تیار جہد ہاتھ میں تھمایا گیا ہے۔ ابھی ہم نے سوچنا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ شہدا کو یاد کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم ان کے وارث ہیں۔ ہم اس کے فلسفہ کے وارث ہیں۔ اس طرح ہمیں انہی کی جہد اور فلسفہ کو لیکر منزل کی جانب رواں دواں ہونا ہے۔ ہمارے لئے یہ اہم اور ضروری ہے کہ ہم پوری قوم کو اپنے ساتھ لیں۔ کیا ہم ایسا کر رہے ہیں؟ اگر ہم پوری قوم کو آگاہی دینے اور ہمراہ کرنے میں کامیاب ہوئے تو ہم اسے شہیدوں کا حق ادا کرنے کا نام دے سکتے ہیں۔
کمال بلوچ نے کہا کہ منان جان نے اتفاق اور اتحاد کیلئے ایک راستہ نکالا۔ آج کی جدوجہد جو آزادی ہے جسے ہم بی این ایم کے پلیٹ فارم سے آگے لے جارہے ہیں، کل اگر ہم تعداد میں دو تھے، آج دس ہیں۔ ہمیں تعداد کے ساتھ فکر وسوچ میں بھی وسعت دینا چاہیئے۔ لوگوں کو بھی اس میں آمادہ اور متوجہ کرنا ہے۔ ریاست نے طاقت کے زور پر جو خوف ہماری نسل میں پھیلا ہوا تھا، یہ ختم ہوگیا ہے۔ اس کیفیت کو پختہ کرکے منظم کرنا ہے۔
ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بی این ایم جرمنی زون کے صدرحمل بلوچ نے کہا کہ شہید ڈاکٹر منان کے کردار پر جتنی بات کی جائے کم ہے۔ وہ ایک مکمل سیاسی شخصیت تھے اور انہوں نے اپنی زندگی بلوچستان کیلئے قربان کی۔ ان کی شہادت بھی انہی سرگرمیوں کے دوران رونما ہوئی۔ بلوچستان میں ایسا کوئی شخص نہیں جو منان جان کے نام سے واقف نہ ہو۔ انہوں نے بلوچستان کے ہرکونے میں بی این ایم اور آزادی کا پیغام پہنچایا۔ ان جیسے رہنما صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ منان جان کی جدوجہد کی وجہ سے ہے کہ ہم بیرون ملک بیٹھ کر بھی اسی جدوجہد کا حصہ ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان کے کاروان کو منزل تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
بی این ایم جرمنی زون کے جنرل سیکریٹری اصغر بلوچ نے شہدائے مستونگ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایک رہنما کیلئے ضروری ہے کہ وہ قربانی اپنے آپ سے شروع کرے۔ ڈاکٹر منان جان کی سیاسی اور قائدانہ بلندی یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کے بارے میں نہیں بلکہ بلوچ اور بلوچستان کے بارے میں سوچتے تھے۔ ڈاکٹر منان ریاست کی مظالم سے جانتا تھا کہ وہ انہیں نشانہ بنانے کے درپے ہے۔ واجہ غلام محمد کی شہادت کے بعد ایک بحران کی کیفیت میں ڈکٹر منان نے گھر گھر گاؤں گاؤں جاکر اس بحران کو قابو پایا۔ اس میں وہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے مطابق ہر طبقہ فکر کو کنونس کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس سے ہم اخذ کرتے ہیں کہ وہ تمام تر قائدانہ صلاحیتوں سے لیس تھے۔
اصغر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان پر قبضہ سے لیکر آج تک کئی بلوچوں نے اپنی زندگیاں قربان کی ہیں۔ ان ناموں میں سے منان جان ایک ایسے نام ہیں جس کا جہد اور کوششیں بلوچ قوم کیلئے تاابد کام آئیں گی۔ انہوں نے بلوچستان کے کونے کونے میں قومی سوچ پیدا کیا۔ ان کی ایک اور بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنا نظریہ اگلی نسل میں منتقل کرنے میں کامیاب ہوا۔ آج مجھ سمیت شاید کوئی ڈاکٹر منان جیسے قدآور نہیں ہے لیکن ان کی جدوجہد کو آگے لیجانے کی سعی کررہے ہیں۔
جرمنی زون کے حمید بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر منان ایک ایسے نام اور کردار ہیں کہ رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔ منزل کے حصول تک ڈاکٹر منان جان کا سوچ و فکر اور نظریہ ہماری رہنمائی کرتا رہے گا۔ ہماری کوشش ہونی چاہیئے کہ ہم اپنی زندگی کو ان کی دی ہوئی نظریہ کے مطابق گزاریں۔