یکشنبه, اکتوبر 6, 2024
Homeخبریںعراق میں صحافیوں راہگیروں اور مظاہرین پر فائرنگ و انکی ہلاکت کی...

عراق میں صحافیوں راہگیروں اور مظاہرین پر فائرنگ و انکی ہلاکت کی تحقیقات

بغداد (ہمگام نیوز) مانٹیرینگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق عراقی حکومت نے اتوار کے روز مظاہرے میں شریک ایک شخص کے قتل اور ایک صحافی کو ہلاک کرنے کی کوشش کے بارے میں تحقیقات تیز کر دی ہیں۔

ایسے میں جب وزیر اعظم مصطفیٰ الخادمی نے حملہ آوروں کا پتا لگانے اور انھیں گرفتار کرنے کا عہد کیا ہے، زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل احتجاجی مظاہرین نے بدھ کے روز، کربلا میں ایرانی قونصل خانے کے نزدیک علاقوں میں آگ لگا دی۔

کربلا میں جو شیعہ زیارات کا مرکز ہے، ایرانی قونصل خانے کے سامنے مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین اتوار کے روز مظاہرے کے دوران ہونے والے قتل اور دیوانیہ کے علاقے میں صحافی کے قتل کے اقدام کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اس واقعے پر ایران کی جانب سے احتجاجی بیان سامنے آیا ہے۔ نومبر 2019ء میں اسی قونصل خانے کو آگ لگا دی گئی تھی۔

عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الخادمی نے، جو خود بھی ایک صحافی رہ چکے ہیں، ان تازہ حملوں کی پشت پناہی کرنے والوں کا کھوج لگانے اور انھیں انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ساتھ ہی، انھوں نے اس سے قبل احتجاج کرنے والوں کی ہلاکت پر سخت اقدام کا عہد کیا ہے۔

انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس میں تجربہ کار سابق ججوں کو رکن کے طور پر شامل کیا گیا ہے، تاکہ عینی شاہدین سے چھان بین کرنے کے علاوہ اس بات کو طے کیا جا سکے آیا اصل حقائق کیا ہیں، اور بعدازاں کمیٹی اپنی حتمی رپورٹ پیش کرے۔

چوٹی کے شیعہ قائدین، عمار حکیم اور مقتدیٰ الصدر دونوں ہی نے گولیاں چلنے کے اس واقعے پر احتجاج کیا ہے۔ حکیم نے کہا ہے کہ احتجاج کرنے والوں اور صحافیوں کا قتل ملک میں صورت حال کو بدتر کرنے کے عزائم کی ایک کڑی معلوم ہوتی ہے۔

الصدر نے قتل کے ان معاملات کو ”بزدلانہ حربہ” قرار دیتے ہوئے، عراقیوں سے ”پُرامن رہنے” کی اپیل کی ہے۔

عراقی تجزیہ کار سلیم مشکور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ موجودہ ابتر حالات مبینہ سازش کا ایک حصہ لگتے ہیں جس میں ان کے بقول ”ایک طرف ایران، تو دوسری جانب امریکہ اور سعودی عرب دکھائی دیتے ہیں، جب کہ عراق درمیان میں الجھ کر رہ گیا ہے”۔

چھ جون کو ملک میں پارلیمانی انتخابات منعقد ہونے والے ہیں اور انھوں نے یہ دلیل پیش کی ہے کہ چند گروپ یہ چاہتے ہیں کہ حکومت پر دباؤ ڈال کر ان انتخابات کو مؤخر کرایا جائے۔

بقول ان کے، ”مقصد یہ لگتا ہے کہ انتخابات میں تاخیر کی جائے۔ کوئی یہ چاہتا ہے کہ الیکشن ملتوی ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہنگامہ آرائی کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں تاکہ سلامتی کی نوعیت کی مشکلات پیدا کی جائیں، جس سے انتخابات کی راہ میں روڑے اٹکائے جا سکیں”۔

خطر ابو ضیاب پیرس کی ایک یونیورسٹی میں سیاسیات پڑھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ متعدد عراقی نوجوان، جن میں سنی اور شیعہ دونوں شامل ہیں، ملک کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں، اور یہ مقصد بہت سے نوجوانوں کو سڑکوں پر لے آیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایران کے حامی ملیشیا گروپوں نے ہنگامہ آرائی کو شہہ دی ہے۔ بقول ان کے، چونکہ وہ لوگوں کو سڑکوں پر لانے میں ناکام رہے ہیں، اس لیے اب وہ تحریک کے چند رہنماؤں کو قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں۔

عراقی حکومت کے خلاف عوامی حمایت والے احتجاجی مظاہرے 2019ء کے موسم گرما کے دوران بندرگاہ والے شہر بصرہ میں شروع ہوئے تھے ۔ یہ مظاہرے پینے کے صاف پانی، ایندھن اور بجلی کی دستیابی میں کمی کے پر نکالے گئے تھے۔ بعدازاں، یہ احتجاج اکتوبر، 2019ء میں بغداد اور دیگر شہروں تک پھیل گیا تھا۔ مئی 2019ء میں سابق وزیر اعظم عبدل مہدی مستعفی ہوگئے تھے، جس کے بعد خادمی منظرنامے پر نمودار ہوئے، جو امریکہ یا ایران سےمنسلک نہیں بتائے جاتے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز