کابل ( ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں غُربت، بے روزگاری اور معاشی مندی کی وجہ سے کچھ خاندانوں نے اپنی کم عمر بیٹیوں کو پیسوں، ہتھیاروں یا مویشیوں کے بدل میں ادھیڑ عمر مردوں سے بیاہ دیا ہے۔
اس وقت جنگ زدہ افغانستان کی معیشت بے پایاں دباؤ کا شکار ہے، نقد رقوم عنقا ہوچکی ہیں اور اس وجہ سے خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ غیر ملکی امداد کی بندش اور خشک سالی نے اس بحران کو دوچند کردیا ہے۔
خبررساں ادارے “رہا” نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ بعض افغان خاندانوں نے اپنی کم سن بیٹیوں کو رقوم، مویشیوں اور ہتھیاروں کے عوض فروخت کرنے شروع کر دیا ہے۔
رپورٹ بتایاگیا ہے کہ صوبہ غورکے دور دراز اضلاع میں ایک کم عمر لڑکی کی قیمت فروخت ایک لاکھ سے ڈھائی لاکھ افغانی کے درمیان ہے۔یہ رقم 1108 ڈالر سے 2770 ڈالر کے برابر بنتی ہے۔
اگر خریدار کے پاس نقد رقم نہیں ہے تو وہ اس کے بجائے لڑکی کے خاندان کو ہتھیار یا مویشی دے کر بھی ہاتھ لے سکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں اگرچہ کم عم رلڑکیوں کو فروخت کرنے کا رواج کوئی نیا واقعہ نہیں لیکن 15 اگست کوطالبان کے ملک پر قبضے کے بعد اس رجحان میں تیزی آئی ہے۔
طالبان کی حکومت کو اس وقت کڑے امتحان کا سامنا ہے۔ اس کو گوناگوں ملکی مسائل درپیش ہیں اور وہ بین الاقوامی سطح پر خود کو تسلیم کرانے کے لیے بھی کوشاں ہے۔
اس کے علاوہ اس گروپ کی اس صلاحیت کے بارے میں عالمی سطح پر شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ آیا وہ اب کہ افغانستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بننے سے روک سکے گا اور کیا طالبان ایک مرتبہ پھر لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کو نظرانداز کرنے کی روایت دُہرا سکتے ہیں۔
طالبان نے اگست میں افغانستان پر قبضے کے بعد 1996 سے 2001ء تک اپنے پہلے دور حکومت ایسے سخت گیر تشخص کی بحالی کے لیے دلکش انداز میں جارحیت کا آغاز کیا تھا اور انھوں نے بعض شہروں میں مجرموں کو سرعام پھانسی دی ہے۔
یاد رہے کہ طالبان کے پہلے دور حکومت میں مساجد میں نماز ادا نہ کرنے والے افراد کوکوڑے مارے جاتے تھے اور سرعام پھانسیاں دی جاتی تھیں، خواتین کی روزانہ کی نقل و حرکت محدود تھی اور اسلامی شرعی قوانین کا سخت انداز میں نفاذ کیا گیا تھا۔
تاہم ایسا لگتا ہے کہ اب کہ بھی طالبان اپنی بنیادی اقدار میں زیادہ تبدیلی نہیں لا رہے ہیں۔انھوں نے عالمی مطالبات کے باوجود تمام گروپوں اور دھڑوں پر مشتمل ایک جامع حکومت تشکیل نہیں دی ہے اور اس کے بجائے کابینہ میں صرف اپنے گروپ کے سینیر ارکان کو شامل کیا تھا۔
طالبان نے خواتین کے امور کی وزارت کو بھی ختم کردیا ہے اور اس کی جگہ نیکی کی تشہیر اور برائی کی روک تھام کے لیے دوبارہ وزارت قائم کردی ہے۔ طالبان جنگجوؤں نے کابل اور دوسرے شہروں میں حالیہ ہفتوں کے دوران میں خواتین کے بہت سے مظاہروں کو تشدد آمیز کارروائیاں کے ذریعے ختم کردیا۔ اس کے علاوہ طلبہ کے لیے تو تعلیمی اداروں میں پہلے ہی کلاسیں شروع کردی تھیں لیکن طالبات کی اسکولوں اور جامعات میں واپسی میں تاخیرکی گئی ہے۔