کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے عہدہ داروں نے کوئٹہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کے دوران فروری کے مہینے میں بلوچستان میں ہونے والی فوجی کاروائیوں دوران ہونے والے نقصانات کی تفصیل جاری کرتے ہوئے کہا کہ رواں سال کی فروری میں90سے زائد فوجی کاروائیوں کے دوران 40بلوچوں کو قتل اور 312افراد گرفتاری کے بعد لاپتہ کیے جا چکے ہیں جو کہ جنوری کے مقابلے میں 147زیادہ ہیں۔ بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان میں کاؤنٹر انسر جنسی کی بے رحمانہ پالیسیاں عام لوگوں کو شدید متاثر کررہی ہیں۔ شدت پسندی کے نام پر ہونے والی کاروائیاں نہتے لوگوں، خواتین، بچوں اور بڑی تعداد میں قیدیوں کی ہلاکت کا سبب بن رہے ہیں۔ ان کاروائیوں کے دوران ہزاروں کی تعداد میں اغواء کیے گئے افراد کی مسخ شدہ لاشیں تسلسل کے ساتھ بلوچستا ن کے مختلف علاقوں سے مل چکے ہیں۔ شدید سردی اور گرمیوں میں شدید موسم کے باوجود فورسز دورانِ آپریشن دیہاتوں کو نظر آتش کرتے ہیں، جس کی وجہ سے بچے و خواتین شدیدموسمی حالات میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں میڈیا پر مکمل پابندی عائد کیا جا چکا ہے۔بلوچستان سے باہر کے لوگ میڈیا میں آنے والی محدود خبروں کے ذریعے بلوچستان کی صورت حال کا اندازہ لگا کر حالات کو پر امن سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ لیکن بلوچستان سے تعلق اور دور دراز علاقوں تک رسائی کی وجہ سے بلوچستان کی سنگین صورت حال سے ہم بخوبی واقف ہیں۔بلوچستان کے حوالے سے جو خبریں میڈیا میں آتی ہیں یہ اصل صورت حال کا ایک فیصد بھی نہیں ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ ایک مہینے کی مختصر عرصے کے دوران سبی سے 10، کراچی سے مشکے کے رہائشی یاسر بلوچ ، جوکہ 2013کی ستمبر کو پنجگور سے اغواء ہوئے تھے، تربت خیر آباد کے رہائشی لاپتہ اسکول ٹیچر ماسٹر نواز سمیت چالیس افراد کو قتل کیا گیا، جن میں سے بیشتر پہلے سے فورسز کی زیر حراست تھے جنہیں مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا گیا۔رواں سال کے پہلے دو مہینوں کے دوران 70سے زائد بلوچوں کو مختلف طریقوں سے قتل کیا گیا۔ جن میں سے بیشتر مہینوں سے ہی فورسز کی تحویل تھے۔بی ایچ آر او نے دعویٰ کیاکہ یکم فروری سے 29فروری کے دوران بلوچستان سے 312بلوچ اغواء نما گرفتاریوں کے بعد لاپتہ کیے جا چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سب سے کم آبادی والے خطے میں فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ ایک مہینے کے دوران 312افراد کی بغیر مقدموں کے گرفتاری بلوچ عوام کے لئے عدم تحفظ کا ماحول پیدا کرچکا ہے۔بی ایچ آر او نے دعویٰ کیا کہ فروری کے مہینے میں سب سے زیادہ166 گرفتاریاں کوئٹہ سے ہوئے ہیں، گزشتہ مہینے بولان سے 55، آواران سے 21، گومازی24، سوئی اور بالگتر سے 22، افراد اغواء کیے جا چکے ہیں۔ ان کے علاوہ گوادر، تربت، دشت، سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں سے24افراد اغواء کیے گئے ہیں، جن میں ہیرونک سے اغواء ہونے والے اسکول ٹیچر عظیم بلوچ، تربت سے اغواء ہونے والے بلوچ شاعر اسمٰعیل آصف بلوچ اور مند سے اسکول ٹیچر منیر رہشون بھی شامل ہیں۔منیر رہشون کی ماں کی جانب سے کئی دنوں تک تربت اور مند ایف سی کیمپوں کے سامنے احتجاج کے باوجود منیر رہشون کو فورسز نے رہا نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ مختصر عرصے کے دوران اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی گرفتاری اور حراستی قتل نہ صرف ہمارے لئے تشویشناک ہے بلکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ بی ایچ آر او نے زمہ دار اداروں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی خاموشی اس طرح کی کاروائیوں میں ہر گرزتے دن کے ساتھ شدت لانے کا سبب بن رہا ہے۔