فرینکفرٹ (پ ر) فری بلوچستان موومنٹ کے بانی سربراہ حیربیار مری نے جرمنی کا دو روزہ دورا کیا جس میں انہوں نے جرمنی میں موجود فری بلوچستان موومنٹ کے کارکنوں سمیت دیگر سیاسی ورکروں سے ملاقاتیں کیں اور سوالوں کے جواب دئیے۔ تفصیلات کے مطابق ان کے دورہ جرمنی کا مقصد فری بلوچستان موومنٹ کے کارکنوں اور دیگر بلوچ سیاسی ورکروں سے ملاقات کرنا تھا۔ میڈیا کو جاری اعلامیے کے مطابق انہوں نے کل بروز ہفتے کا دن پارٹی ورکروں سے ایک میٹنگ کے علاوہ جرمنی میں مُقیم دیگر سیاسی ورکروں سے ملاقاتیں کیں۔ اس دوران انہوں نے بلوچ سیاسی ورکروں کے سوالات کے جوابات دئیے۔ فری بلوچستان موومنٹ کے بانی صدر حیربیار مری نے مختلف سیاسی موضوعات پر بات چیت کی۔ خطے میں بدلتے سیاسی، معاشی اور عسکری حالات کے تناظر میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں پر روشنی ڈالی۔ ایرانی مقبوضہ بلوچستان کی آزادی کو اپنے مقصد اور پروگرام میں شامل ہونے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کہ “بلوچ قوم کی کمزور صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا یہ ناقابل عمل نعرہ نہیں کہ بلوچ دو قوتوں سے بیک وقت لڑ کر اپنی آزادی لے سکتی ہے؟” حیربیار مری نے کہا کہ بلوچ کمزور نہیں ہیں لیکن بلوچ کو سب سے پہلے اپنی طاقت کو پہچاننے کی ضرورت ہے اُس کے بعد اُس طاقت کو قومی مقصد کے لئے صحیح سمت میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ہمیشہ مفروضے سُنتے رہتے ہیں کہ جی مغربی مقبوضہ بلوچستان میں اُس سطح کی سیاسی شعور نہیں کہ وہاں کے بلوچ آزادی کی تحریک میں حصہ لیں، اگر یہ سچ ہے تو یہ ہماری کمزوریوں کی واضح دلیل ہے۔ ہم نے سیاسی ادارے بنائے، سیاسی قیادت پیدا کی وہ سیاسی ادارے اور سیاسی قیادت کتنی موثر ہے اس کا ثبوت ہماری موجودہ تحریک ہے۔ قومی تحریک اپنے آپ میں ایک وسیع فلسفہ ہے اور اس فلسفے کو سمجھ کر اس حقیقت کی راہ تلاش کرنا قومی قیادت کی ذمہ داری ہے۔ شائد یہ ہماری سادگی ہے کہ ہم حمایت کو حاکمیت بنا لیتے ہیں۔ کچھ قوتیں شائد ہماری مدد ایسی شرائط پر کرنا چاہیں کہ وہ ہمارے حاکم بنیں ہمیں ایسی مدد قبول نہیں کرنا چاہئیے۔ ہماری حمایت یا مدد برابری اور قومی وقار کے ساتھ ہونا چاہیے۔ پاکستان اور ایران کے ساتھ ہمارا مسئلہ ہے کیا اس کو سمجھنا ہی ہمارے مسائل کے حل کی طرف ہمارا پہلا قدم ہے، ہمارا اپنے قابضین کے ساتھ اختلاف اور ہماری تحریک کی بنیاد یہ ہے کہ وہ ہمارے حاکم بنے ہوئے ہیں۔ اگر بیرونی طاقتوں کو ہی اپنا حاکم بنانا ہمارا مقصد ہے تو یہ جنگ، اور بھاری قربانیاں کیوں؟ حاکمیت کو قبول کرلیں جھگڑا ہی ختم لیکن ہم کہتے ہیں کہ ہم اس لئے جدوجہد کر رہے ہیں کہ ہمیں اپنی زمین پر بلوچ عوام کی حاکمیت بحال کرنی ہے مگر جب ہم بیرونی خواہشات اور اشاروں پر اپنی پالیسیاں بنانا شروع کردیں تو ہماری تحریک، اس جنگ اور قُربانیوں کی طویل فہرست کا مطلب اور مقصد ہی ختم ہوجائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی ادارے اور سیاسی قیادت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی قوم کو قومی مقصد سے ہم آہنگ کرے اور ان کی قیادت کرے بلوچستان کی سرزمین بغیر بلوچ عوام کے ہمارے کسی کا کام نہیں۔ ہمارا مقصد قومی غلامی سے نجات حاصل کرکے قومی آزادی حاصل کرنا ہے اور قومی آزادی میں ہماری پوری بلوچ قوم شامل ہے۔ اگر ہم قومی آزادی کے فلسفے میں خیانت کریں تو یہ ایک قومی غداری کے مترادف عمل ہے۔ اگر ہماری حالیہ تحریک آزادی کو ہی ایک رول ماڈل کے طور پر دیکھا جائے اور اسی کو ہی ایمانداری سے سمجھ کر دیکھیں تو ہمیں یہ اندازہ بآسانی ہوجائے گا کہ ہم گزرتے وقت کے ساتھ جس طاقت، توانائی اور سیاسی پُختگی کے مالک ہوں شائد ہم اُس مقام سے تھوڑا پیچھے ہوں۔ دیگر اقوام اپنی شروعات ہم سے کئی گُنا کمزور حالت میں کرتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ اس میں نکھار پیدا کرکے بہتری کی جانب جاتے ہیں مگر ہم نے شروعات ایک متحد انداز میں کی مگر وقت کے ساتھ ساتھ تقسیم در تقسیم کے شکار ہوکر کمزور ہوتے گئے اس کی شائد وجہ ہماری سادگی ہو۔ ابھی ہماری دُشمنی ایران اور پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ بھی ہے شائد آگے جاکر کوئی اور قوت بھی بلوچ عوام کی دُشمنی شروع کرے، دوستوں اور دشمنوں کا چُناؤ ہماری قومی مفادات سے جُڑی ہوئی ہونی چاہئیے کسی کی خواہش کے مطابق نہیں۔ ہم 13 نومبر کو شہدائے بلوچستان کا دن مناتے ہیں کیا ہم نے کبھی سوچا یا جاننے کی کوشش بھی کی کہ شہید محراب خان نے جس بلوچستان کے لئے دُشمن سے لڑ کر شہادت پائی وہ بلوچستان ایک متحدہ بلوچستان تھا؟ جس بلوچستان کی حفاظت میں محراب خان نے شہادت پائی اور ہم نے اُس دن کو بلوچستان کے تمام شہداء کا دن مقرر کیا اُس بلوچستان میں ایرانی مقبوضہ بلوچستان بھی شامل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شائد یہ عمل ایک منافقانہ طریقہ کار ہو کہ جس بلوچستان کی حفاظت کرتے ہوئے بلوچستان کے حکمران نے شہادت پائی اور ہم نے اُس دن کو قومی وقار کا ایک عظیم دن کا درجہ دیا مگر پھر اُسی بلوچستان کے آدھے حصے سے دستبردار ہونے کا عمل کررہے ہیں۔
غزا اور اسرائیل کے تنازعے کے خطے اور خاص طور پر بلوچستان پر پڑھنے والے ممکنہ اثرات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں حیربیار مری نے کہا کہ جس طرح چین دنیا پر اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کررہا ہے اور دنیا کو جوڑنے کے لئے بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کا آغاز کیا تھا امریکہ اور یورپ نے اپنے دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر اس کا متبادل پیش کیا جس کے بعد اسرائیل کے ساتھ عرب دنیا کے تعلقات کی بحالی کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ چین نے اپنے پروجیکٹ میں مڈل ایسٹ پر اتنی توجہ شائد نہیں دی اس لئے اس کے متبادل کے طور پر پیش کئے گئے مغربی پروجیکٹ میں مڈل ایسٹ کی نمایاں شراکت داری ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ عرب دنیا سے اسرائیل کے دوستانہ تعلقات ہوں میری نظر میں اس پروجیکٹ کو سبوتاژ کرنے کے لئے یہ محاذ کھولا گیا ہے اور یہ آگے جاکر مزید مشکل بنے گا جس کی وجہ سے شائد چین کا راستہ روکنے کے لئے بلوچستان کو اہمیت دی جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خطے کے حالات پر اپنی گرفت کمزور ہوتا دیکھ کر چین ہماری شناخت کو قبول کرلے دونوں صورتوں میں بلوچ کو سیاسی حوالے سے فائدہ ملے گا مگر اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کی سب سے بڑی شرط ہماری آپسی ہم آہنگی اور اتحاد ہے۔ ہم اپنے سے کئی گُنا زیادہ دشمن کے ساتھ لڑ رہے ہیں، ایسی صورت میں ہمارا اتحاد سب سے ضروری اور اہم کردار ادا کرے گی۔ سیاسی اختلافات ہمیشہ بہتری کے لئے رکھی جاتی ہیں لیکن ہمارے ہاں شائد اتحاد کو ایک دوسرے کی غلطیوں کو چھپانے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ ہم اپنے اتحادی اور تحریکی دوست سے ہمیشہ یہ تقاضہ یا توقع کرتے ہیں کہ جی وہ ہمارا اتحادی ہے لہٰذا وہ ہماری غلطیوں کو بھی چُھپا لے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اتحاد ہونے کے باجود بھی ایک دوسرے کی غلطیوں کی نشاندہی کی جانی چاہئیے تاکہ بلوچ تحریک اپنے روایتی ارتقاء سے نکل کر ایک سائینٹیفک انداز میں آگے بڑھ سکے۔ انہوں نے زور دیکر کہا کہ سیاسی پارٹیاں مقصد نہیں بلکہ مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں۔ ہمیں مقصد کو ہمیشہ اپنی پہلی ترجیح کے طور پر رکھنا چاہئیے۔ قومی بیرک کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ بیرک کسی پارٹی یا تنظیم کا نہیں بلکہ یہ ہمارا قومی نشان ہے۔ جب تک ہم جدوجہد کے مراحل میں ہیں یہی ہماری تحریک کی نشانی کے طور پر ہمیں اپنے سائے تلے متحد رکھے گا۔ جب بلوچستان آزاد ہوگا تو یہ اختیار بلوچستان کی نمائیندہ ادارے کا ہوگا کہ وہ اس بیرک کو تبدیل کرنے کے لئے بلوچ عوام میں ایک ریفرینڈم کا انعقاد کریں اور بلوچ قوم کی منشا اور مرضی سے اس کو بدل دیں لیکن یہ بیرک میری پیداوار نہیں ہے۔ اس بیرک کو متعارف اس وقت کے تمام سیاسی جماعتوں نے ملکر کیا۔ شائد اس کو پہلی دفعہ ایک تنظیم کی جانب سے متعارف کی گیا مگر اس وقت بلوچستان کی آزادی کی تحریک کی نمائیندہ تنظیم بھی تو وہی تھی۔ اُس تنظیم نے بیرک کے علاوہ دیگر کئی چیزیں بھی متعارف کیں کیا ہم آج ان سے بھی انکاری ہونگے؟ میں نے اس بیرک کو ایک ورکر کی طرح اپنایا کیونکہ مجھے زمین پر موجود تمام دوستوں بشمول شہید غلام محمد نے ایسا کرنے کا کہا۔ اگر پیش کرنے کی بنیاد پر چیزیں رد کرنا شروع ہوں تو ہمارے پاس متحد ہونے اور اپنی تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے کچھ بھی نہیں بچے گا۔ قومی ترانہ ہمارے لئے ایک مثال ہے، وہ تو کسی تنظیم نے شائد متعارف نہیں کیا مگر قوم نے اس کو قبول کیا تو میں کون ہوتا ہوں اس کو رد کرنے والا؟ 13 نومبر کو بلوچ شہدا کا دن مقرر کیا گیا اس کو قوم نے اپنایا تو ہم کیسے اس سے انکار کرسکتے ہیں۔ مسائل کو جتنا کم رکھا جائے اُن کو حل کی جانب لے جانا اتنا ہی آسان اور قابل عمل بن جاتا ہے۔ پارٹی بازی اور ہم کے بجائے “میں” ہمارے بیچ مسئلے پیدا کرنے کی وجہ بن سکتا ہے۔ یہ چیزیں ہمیں بلا تفریق ایک ہونے کی طرف لے جا سکتی ہیں۔ جنگ زدہ ماحول میں عوام کی قبولیت ہی ایک ریفرینڈم کی حیثیت رکھتا ہے۔ آزادی کے بعد کسی بھی چیز کو بدلا جاسکتا ہے اور اُس کے لئے طریقہ کار عوام میں جاکر اُن کی رائے لینا اور ان سے فیصلہ کروانا ہے۔ آزاد بلوچستان میں حاکمیت صرف اور صرف عوام کی ہوگی اور ہر فیصلہ عوام کرے گی۔ طاقت کا مرکز عوام ہوگی جو جمہوری طریقے سے اپنی طاقت جسے چاہیں دے سکتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں کہ “عرب ممالک کی طرح اگر کل بلوچستان کو آزادی تو دی جائے مگر بلوچوں کو تیں ریاستیں دی جائیں، کیا یہ عمل ایک قابل قبول عمل ہوسکتا ہے”؟ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو ہم مزید تقسیم کی طرف جائیں گے۔ مرکزیت نہ ہونے کی صورت میں شائد ہر قبیلہ اپنی الگ ریاست بنانے کی کوشش شروع کرے۔ میں عرب ممالک کو ریاستیں کے ساتھ ساتھ قبائلی سُلطنتیں سمجھتا ہوں جہاں پر ایک خاندان یا قبیلے نے اپنی ایک ریاست قائم کی ہوئی ہے۔ اِسی وجہ سے ہی آج اتنی بڑی دولت اور آبادی کے ہوتے ہوئے اسرائیل جیسا چھوٹا مُلک ان سے کئ گنا طاقتور ہے۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کیا ہمیں دنیا میں ایک ایسی حیثیت درکار ہے؟
دنیا نے آج دن تک میری نظر میں ایسا کوئی تجربہ نہیں چھوڑا جس سے ہم کچھ سیکھ کر اپنی پالیسیاں ترتیب دیں۔ ایسی بکھری قوت اور طاقت کے ساتھ ہم نہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنے کے قابل ہوں گے اور نہ ہی اپنی قوم کو اقتصادی طور پر مظبوط بنا پائیں گے۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے قابضین نے اقتصادی طور پر ہمیں ایک دوسرے سے کاٹ دیا ہے۔ مکران کی اقتصادی وابستگی ایران سے ہے، حب چوکی اور لسبیلہ وغیرہ کی سندھ سے، ڈیرہ جات اور آس پاس کے علاقوں کی پنجاب سے تو ایسی صورت میں کس حصے کے بلوچ پر کیا اقتصادی مسائل ہیں اُس سے دوسرا بلوچ لاعلم ہے۔ قومی نجات اور شناخت کے طور پر ہم نے حالیہ قومی تحریک کو یکساں طور پر قبول کرکے یا اپنا کر ایک دوسرے کو اپنا لیا ہے مگر اقتصادی طور پر آج بھی ہم ایک دوسرے سے اُس طرح سے نہیں جُڑ پائے جس طرح سے ہمیں جُڑنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اقتصادی طور پر بھی ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوئے اور ہمارے مسائل ایک ہوگئے تو شائد ہماری طاقت بھی ایک ہو اور ہم ہر حوالے سے ایک دوسرے کے مسائل اور ان کے حل کا حصہ بن جائیں جو ہماری قومی تشکیل کی بنیاد بن سکتا ہے۔