Homeآرٹیکلزفلسفہ ترجیحات، سیاسی ڈپلومیسی اور مسلح جنگ کا ملاپ

فلسفہ ترجیحات، سیاسی ڈپلومیسی اور مسلح جنگ کا ملاپ

تحریر: زربار بلوچ
گزشتہ سے پیوستہ (حصہ دوئم)
دوسرا ایک گروپ جن لوگوں نے ماؤ کے کلچراور
سماجی انقلاب اور تبدیلی کا نعرہ لگاکر ماؤ کی طرح سب کچھ ملیامیٹ کرنے کی کوشش کی۔ وہ اختلافات اور دشمنی کے فرق کو سمجھنے سے قاصر تھے ان سے جس کسی نے اختلاف کیا، وہ اسکو دشمنی کے لیول تک لے جانے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کے فلسفے میں سیاسی مخالفین کا خاتمہ ضروری ہے ۔ جہاں ماؤ، پل پٹ، اسٹالن اور ادی امین نے انقلاب برپا کرکے اپنے ملک کا نظام تبدیل کرکے لاکھوں لوگوں کا قتل عام کیا لیکن انکے برعکس انکے یہ آدھے تیتر اور آدھےبٹیر معتقد اور مقلد انقلابیوں نے کوشش کی کہ قومی تحریک کا نظام درہم برہم کریں۔ جہاں تک ہمارا چند سالوں سے ان سے واسطہ پڑا ہے اور انکی ذہنیت دیکھی ہے یہ تین میں نہ تیرہ میں رہنے والا طبقہ بلوچ قومی تحریک میں مبہم، کنفیوژن اور ابہام کے شکارموقع پرست اور لالچی طبقہ ہے۔ یہ کسی بھی وقت اپنی رائے، فکر،سوچ اور باتیں بدلنے میں پنجابیوں کی طرح شرم محسوس نہیں کرتے اور انکو اپنی باتیں موقف اور رائے بدلنے کے لیے یدطولی حاصل ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جو لوگ بلوچ قومی یا فکری حوالے سے ان کے اتحادی یا کہ انکے ساتھ ہیں یہ انکے خلاف اندرونی طور پر سازش کرکے پنجابیوں کی طرح انہی کی جڑوں کو کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اپنے اتحادی اور حمایتی تنظیموں میں اپنے جاسوس بھیج کر انکے اندر سازشیں کرکے اپنے اتحادی پارٹیوں کو آپس میں لڑا کریا کہ انکے درمیان اختلافات پیدا کرکے انکو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور انکے کچھ لوگوں کو انکے اپنے لیڈران اور تنظیموں کے خلاف بھی بدزن کرکے لانگ ٹرم اپنے لیے تیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کوئی اتحادی اور سنگتی کسی سے کرتا ہے مگر دوسری جانب اسکو توڑنے اور کمزور کرنے کی کوشش کرے تو وہ ایک طرح سے دھوکہ، فریب اور منافقت سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ تو دشمن کا کام ہے کہ وہ دوست کے روپ میں دشمنی کرتا ہے۔  یہ عمل بلوچ کی قومی خصوصیات میں شامل نہیں ہے کہ وہ دوست اور اتحادی بن کر اپنے دوست اور اتحادی کے خلاف کام کرے۔ ہاں پنجابی نے امریکہ سے پیسہ لیکر امریکہ کے دشمنوں کی کمک کی، کیونکہ انکی نفسیاتی ساخت دھوکہ دہی اور فریب کاری کا ہے اس کے برعکس بلوچ قوم کی ہزاروں سال کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
 جب سنگت حیر بیارمری بی این ایم اور بی ایس او سے نزدیک رہے تو انکو اپنا بازو سمجھتے رہے اور انکی خاطر انکے کتنے مخالفین سے ٹکر لی۔ باقی پارٹیوں کی مخالفت ان کی خاطر قبول کی، احمر مستی خان سمیت بہت سے لوگ آج تک انکے مخالف ہیں کہ وہ اس وقت ان کو بی ایل ایف کے خلاف باتیں کرنے پر زور دیتے رہے لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ بلاوجہ کسی پریشر میں آکر یا کسی کو خوش کرنے کے لئے قومی اداروں میں دخل اندازی کرکے اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے دغا نہیں کریں گے کیونکہ وہ ایک لیڈر ہیں جس میں باقیوں کی نسبت مورال اتھارٹی ہے۔ دوسری طرف نا تین اور نا تیرہ والا انقلابی طبقہ جو بی این ایم اور بی ایس او کا اتحادی ہے۔ مکران سے چند بی این ایم اور بی ایس او کے دوست ہیں اور انکے ان سے سیاسی اختلافات ہیں تو ان لوگوں نے ایک دوست سے انکے کردار کے بارے بھی بات کی اس دوست نے ایک راز میرے ساتھ افشاں کیا جسکو سن کر اگر میری جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ انگشت بدنداں ہوتا لیکن کیونکہ میں انکے اعمال اور طور طریقوں سے پہلے سے ہی واقف تھا اس لئے مجھے بجلی کے جھٹکے نہیں لگے۔ بقول ان دوستوں کے کہ ان کو یہ تین نا تیرہ والے انقلابی طبقے نے رابطہ کیا اور کہا کہ آپ لوگ بی این ایم اور بی ایس او کے خلاف اندرونی سطح پر کام کرو اور انکے اچھے اچھے دوستوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرو اور بعد میں جب ہمارا ان کے ساتھ مسئلہ ہوگا اور ہم ان سے الگ ہونگے تو آپ لوگوں کے ساتھ الگ سے اپنی تنظیم بناکر کام کریں گے۔ بقول اس دوست کے ان لوگوں نے کہا کہ یہ بات راز میں رہے ورنہ ہمارا اتحاد ٹو ٹ جائے گا۔ حالانکہ اس بندے کو ہم نے کہا کہ یہ تحریک ہے اور اب بھی تمام باقی پارٹیوں سے اختلافات کے باوجود بھی اگر بی ایل ایف، بی این ایم، بی ایس او،  بی آر اے اور بی آر پی کا کوئی بندہ مشکل اور تنگی میں سنگت سے کمک مانگتا تھا تو سنگت نے اُسے اپنی پارٹی میں آنے کی دعوت نہیں دی کہ وہ بلوچ جہدکاروں کی مجبوریوں سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے تھے بلکہ کہا کہ ایک بلوچ جہدکار کی طرح ہمارا فرض ہے کہ اپنے جہدکاروں کی مدد اور کمک کرسکیں۔ ایسے سینکڑوں کیس ہیں لیکن دوسری طرف معطل ٹولے نے بی ایل ایف کے ساتھ ملکر قدوس بزنجو، کریم نوشیروانی،احسان شاہ اورمحمد علی رند کا ریکارڈ توڑا کہ سنگت حیر بیا رمری کے وہ ساتھی جو مالی حوالے سے کمزور اور تنگ تھے انکو پیسوں کا لالچ دیکر اپنے ساتھ شامل کروایا۔ سوال اٹھتا ہے کہ اگر آپ کسی جہدکار کو کرایہ کشی کرکے پانچ لاکھ دیکر کرپٹ بنانے کی کوشش کرتے ہو تو کیا کل اگر تمہاری کرایہ کشی ختم ہوجائےاور تم پیسے دینے کے پوزیشن میں نہ رہے تو کیا اس طرح کے لوگ پھر قابض کے دوکروڈ کے پیشکش کو ٹھکرا سکیں گے؟
چونکہ معطل ٹولے نے بلوچ قومی تحریک کو ایک طرح کا کاروبار سمجھا ہے جس طرح پارلیمانی سیاست میں کسی ٹھیکہ دار کو ٹھیکہ دیکر ایک پارٹی سے دوسری پارٹی بدلنے پر مجبور کیا جاتا ہے یا کہ کسی کو کوئی حکمران جماعت نیب، تبادلہ،دباؤ کا اپنا اثررسوخ استعمال کرکے اپنے ساتھ شامل کرتا ہے۔  ان انقلابی لوگوں نے قومی جہد میں انقلاب برپا کرکے اسکو پارلیمانی طرز پر استوار کیآ۔ دوسرا اس گروپ نے ایک قومی پروگرام کو مولانا فضل الرحمان کی طرح جذباتی شکل دینے کی کوشش کی ہے۔ جس طرح نوے کے زمانے میں جمعیت اور مذہبی گروپ جنکے زیادہ تر لیڈران بلوچستان سے باہر کے تھے اور ان لوگوں نے شعوروعقل و فہم سے عاری زیادہ تر چھوٹے چھوٹے نوجوانوں کو مذہب کا افیون دے کر جذباتی کرکے ایک ایک بندے کی موت کے عوض ڈالروں کی شکل میں پیسے وصول کئے اور ان لوگوں نے جتنے زیادہ لوگ مروائے اتنا زیادہ پیسہ کمایا جتنے زیادہ لوگ مرتے تھے، انکی دکان اتنی ہی زیادہ چلتی تھی۔ اس زمانہ میں زامران، پروم، پنجگور، خاران، قلات، خضدار،مستونگ سے بڑی تعد میں نوجوانوں کو لے جاکر وہ افغانستان اور کشمیر میں مرواکر انکی لاشوں کو کیش کرتے تھے۔ اسی زمانے میں مکران میں ایک جمعیت کا بندہ ہے جو بلوچ قومی جہد کا حمایتی بھی ہے اس نے کہا کہ اس وقت ہم نے سنا کہ ملاؤں نے کہا کہ ہمارا کیا ہے جتنے زیادہ لوگ مرتے ہیں اتنی ہماری سیاست چلتی ہے۔ اس نے کہا کہ انکی دکان زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مروانے سے چلتی ہے تو آج معطل ٹولے نے بھی انہی کے فلسفے کوبلوچستان میں اپنایا ہے۔ نوجوانوں کو جذباتی کرکے مرواکر اور انکو تحریک کا حوالہ دیکر کسی سفارتخانے اور ہوٹل پر حملہ کرکے قومی تنظیموں کو داعش اور لشکر جھنگوی کی شکل دی۔ لوگوں کو جذباتی کرکے مولانا فضل الرحمان کی نوے کی دہائی کی طرح زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مروانا ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان لوگوں سے جتنے بھی نوجوان اور لوگ رابطے میں تھے پانچ سو سے زیادہ لوگ گرفتار کیے گئے ہیں اور بہت سے لوگ انکے کیمپ میں سرایت کردہ ریاست کے لوگوں کی وجہ سے مارے گئے ہیں۔ انکا ایک اچھا مشغلہ بھی ہے کہ جتنے بلوچ نوجوان شہید ہوتے ہیں یا کہ انکو گرفتار کیا جاتا ہے اگر کسی نے غور کیا ہو تو یہ فیس بک اور سوشل میڈیا میں اپنی پبلسٹی کے لئے ان جہدکاروں کو اپنے نام سے جوڈ کر اس کی بہت زیادہ تشہیر کرتے ہیں۔ اس شہید جہدکار کا نام بھی اسی دوران ظاہر کرکے ان کی عورتوں تک کو ریاست کے دباؤ کا شکار کرچکے ہیں۔ انکی اپنی کوئی عورت گرفتار ہو تو زمین آسمان تک ایک کرتے ہیں لیکن ان جہدکاروں کو جب استعمال کرتے ہیں انکی عورتوں کو ریاست کے جبر کے شکار کے بعد یہ بے حس لوگ اس پر بھی نمود ونمائش کرتے ہیں حالانکہ بقول ایک دوست کے کہ جب شاکر بلوچ نے گوادر میں قابض ریاست کے سامنے سرنڈر ہونے سے بچنے  کی خاطر خود کو شہید کرکے ایک تاریخ بنائی تو سارے انکے دوست اسکی بہادری اور دلیری کی داد دیتے رہے اور اس دوست کے مطابق جب یہ خبر بی ایل اے کے ھائی کمان تک پہنچائی گئی اس دوست کے مطابق اس نے کہا کہ ھائی کمان بہت پریشان ہوا اور کہا کہ اس پر خوش ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ ہماری تحریک کے لیے یہ عمل اور ایسے بہادر جہدکار کا جانا ایک بڑا نقصان ہے۔اسکی زندگی قابض پاکستان کے لیے ایک سردرد تھی اور بلوچ قومی تحریک کے لیے ایک کامیابی تھی اسکی زندگی کا ہر معرکہ دشمن کو زک پہنچاتا تھا اور بلوچ جہد کو فائدہ دیتا تھا اسکی شہادت آج پاکستان کے لئے جشن کا سما ہوگا کہ اسکا ایک مستقل زک پہنچانے والا سپوت چلا گیا۔ اس نے کہا کہ جہدکاروں کوہم نے تربیت دینی ہے کہ وہ زندہ رہ کر دشمن کا مقابلہ کریں اور انکی زندگی قوم کے لئے اور جہد کے لیے ضروری ہے جبکہ انکا نقصان دشمن کے لئے فائدہ مند ہے ہاں ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ انسان کے لئے آخری حربہ دشمن کے ہاتھ جانے سے بہتر موت ہوتی ہے لیکن ایک جہد کار کی زندگی قوم اور سرزمین کی امانت ہے۔ اسکو ملک و قوم کو آزاد کروانا ہے اور قابض کو اس سرزمین سے نکالناہے۔ دوسری طرف قابض کوشش کرتا ہے کہ ایک تنظیم خاموش ہے یا کہ ایک بہادر جہدکار خاموش ہے وہ اسکو جذباتی کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ جذباتی ہوکر کوئی ایسا عمل کرے تاکہ قابض اسکا خاتمہ کردے۔
ایک جہد کار تھا جس نے قابض کو بہت تنگ کیا ہوا تھا۔ قابض کو معلوم ہوا کہ وہ اپنے گھر گیا ہے تو دشمن نے اس کو پکڑنے یا شہید کرنے کےلئے اس کے گھر پر چھاپہ مارا، قابض کو گھر میں دیکھتے ہوئے وہ جہدکار کسی خشک گاس یا جھاڑی میں خود کو چھپانے میں کامیاب ہوا۔ دشمن کو معلوم تھا کہ وہ یہیں کسی جگہ پر موجود ہوگا۔ لہٰذادشمن فوج نے آواز دی کہ باہر آؤ ورنہ تمہارے بچے کو مار دیا جائیگا۔  وہ جہدکار نہیں آیا،  پھر دشمن نے دھمکی دی کہ تماری بیوی کو مار دیا جائے گا۔ وہ پھر بھی نہیں آیا۔ جس کے بعد دھم کی دی  کہ تمہاری ماں کی باری ہے۔ وہ جہدکار کہتا ہے کہ ماں کی باری آئی مجھے تکلیف ہوئی لیکن پھر کہا کہ اگر میں مرگیا تو قابض زندگی بھر قائم رہے گا۔ میری ماں دشمن کو میرے ملک سے نہیں نکال سکے گی لیکن میری ماں مرگئی اور میں زندہ رہا تو میں اسکو زک پر زک پنہچا کر اپنے وطن سے نکال دونگا۔ اسی دوران اس نے اپنے جذبات پر قابو پایا کیونکہ قابض کا کام ہے کہ جہدکاروں کو جذباتی کرکے گرفتارکروانا یا کہ مروانا اور جہدکاروں کا اسکے مدمقابل کام ہے کہ وہ ریشنل ہوکر قابض سے مقابلہ کرکے اسکواپنے وطن سے نکال دیں۔
 ایک جہدکار میں جذبہ ہونا ضروری ہے لیکن جذباتی  جہدکار تحریک کے لئے زہر قاتل ہے ۔ انگریز نے پہلی بار جب مری قبائل سے جنگ لڑی تو مریوں نے چھاپہ مار جنگ سے انگریز کو بہت زیادہ زک پہنچائی لیکن بعد میں انگریز نے مری جنگجوؤں کو شگان دیا اور جذباتی کرکے سارے لوگ ایک ساتھ جنگ پر لاکر سب کو نقصان دیکر انکی جہدکو نقصان دیا۔ اس دن کے بعد خیربخش مری سے لیکر سنگت حیر بیار مری تک کوئی بھی لیڈر جذباتی نہیں ہوا اور قابض اور قابض کے کاسہ لیس انکو جذباتی نہیں کرسکتے۔ چواجہ قومی جنگ ایک ریشنل جنگ اور جدوجہد ہے اور اسکو ریشنل طریقے سے جنگ،سفارت کاری اور سیاسی طریقے سے سیاست کے ملاپ سے لڑکر دشمن کو شکست دی جاتی ہے۔
کوئی نیشنل پارٹی بی این پی جڑواں اور مسلم لیگ کو گالیاں دیکر مخبر اور ایجنٹ کہہ کر پھر انکے احتجاج سے متاثر ہوکر رائے بدلے کوئی ایک جھنگوی اور داعش طرز کی کاروائی سے اپنی رائے بدلے وہ جہدکار کم نمائشی زیادہ لگتا ہے۔ معطل ٹولہ بھی اپنے مزموم عزائم کو چھپانے کے لیے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو جذباتی کرکے مروا رہا ہے۔ بقول ایک دوست کے معطل ٹولہ قیمہ بنانے کی مشین ہے۔  جس جہدکار نے وہاں سلام کیا بعد میں وہ قیمہ ہوکر ہی نکلے گا اور اسکی لاش پرمعطل ٹولہ اور اسکے باہر موجود خودساختہ دوتین حمایتی جو منافقت میں پی ایچ ڈی کرچکے ہیں باہر خود کوئی نا ڈھنگ کا کام کرسکتے ہیں بس دن رات گراؤنڈ گراؤنڈ کا رٹا لگاتے ہیں مگر خود بیٹھے ہیں باہر اور جب  گراؤنڈ کی آتی ہے تو کچھ جذباتی نوجوانوں کو قیمہ بنانے کی مشین میں ڈالتے ہیں۔ یہ خود دو سال ہوئے ایک بھی گراؤنڈ میں جانے کے لئے تیار نہیں ہوا ہے ۔ میں سوگند کھا کرکہتا ہوں کہ اگر میں انکی جگہ ہوتا اور سمجھتا کہ صرف گراؤنڈ کا کام صحیح ہے تو میرے لئے باہر رہنا حرام ہوتا اور جاکر گراؤنڈ میں کام کرتا لیکن اپنی قوم اور نوجوانوں کے جذبات اور احساسات کے ساتھ نہیں کھیلتا۔ ہمیں فخر ہے کہ بی ایل اے اور اسکی ہائی کمان پر کہ جو نوجوان معطل ٹولہ کے ہاتھ لگے اور شہید ہوئے وہ بی ایل اے کے دوستوں کو ایک سال سے کہتے رہے کہ وہ انہیں تنظیم میں لے لیں لیکن بی ایل اے کے  دوستوں نے انکو لینے کی بجائے یہ کہا کہ وہ تعلمی اداروں میں رہ کرکام کریں بعد میں جب موقع ہوگا تو انکو تنظیم میں لے لیں گے ۔
میرے اپنے دو واقف کار ہیں اور میں جانتا ہوں کہ وہ بہت لائق اور قابل جہدکار ہیں ان دونوں نے بی ایل اے کے دوستوں کو کہا کہ وہ انکو درویش کے کام کے لئے بھیج دیں، حالانکہ یہ بہت جذباتی تھے لیکن تنظیم کے ذمہ داران نے انکو سمجھایا اور کہا کہ اس جہد میں جذبہ ضروری ہے جذباتی پن نہیں اور تم لوگ کسی اور جگہ کام کرو بہتر کام کرسکوگے۔ ان دونوں کوتنظیم کے ذمہ داران نے سمجھایا اور شعوری حوالے سوچ دیا اب وہ دوست بہت اچھا کام بھی کررہے ہیں اور ان دونوں نے کہا کہ شکر ہے کہ ہم قیمہ مشین کے ہاتھ نہیں لگے ورنہ اس وقت ہم قیمہ ہونے کے ساتھ ساتھ پوری تحریک کو بھی بدنام کرچکے ہوتے۔ بی ایل اے نے شعوری اور فکری حوالے سے اس جدوجہد کا آغاز کیا کہ وہ اس کو منزل تک لے جائے گا اور اس دوران مختلف مراحل نشیب و فراز آئے گئے۔ دشمن کوشش کرے گا کہ ہمیں تقسیم درتقسیم کرے، علاقوں، طبقوں، ذاتوں میں تاکہ قومی جہدکو دنیا میں بدنام کرسکے اور ہم ایسے کام کریں جس طرح چیچن اور تامل نے کئے۔ ایک قومی تنظیم اور ایک دہشت گرد مذہبی جنونیت کے عامل تنظیم کا فرق ختم ہو ۔ جب کوئی قومی تنظیم اپنے دائرے سے نکل کر سیاست سفارتکاری اور مسلح جدوجہد کے ملاپ کو توڑ کر داعش، طالبان، چیچن کی طرح صرف سفاک دہشت گردی کرے گا دنیا کے قانون کو نہیں مانے گا تو آج کی دنیا میں کوئی بھی مہذب ملک اس تنظیم یا کہ جہد سے خود کو نتھی یا منسلک کرکے بدنام نہیں کرے گا حالانکہ سوڈان اور صومالیہ جیسے ممالک کے لئے اس طرح کی تنظیموں کا بوج اٹھانا مشکل ہے ۔ کونسا ملک ہے کہ دنیا میں داعش کی کمک اور حمایت کرسکتا ہے؟ کونسا ملک تھا کہ جس نے چیچن کی کھل کر حمایت یا کمک کی؟ حالانکہ دہشت گردی کی کاروائیوں سے پہلے یورپ نے کھل کر انکی حمایت اور کمک کی بلکہ ریڈیو یورپ انکی مدد کے لئے بنایا گیا۔  روس نے ان بدبختوں کے اندر ایسے ناسور سرایت کروائے۔ انکے اندر اور داعش میں فرق ختم کیا پھر کس نے انکی حمایت کی؟ کوسووو، ایریٹریا، کرد تحریک کی دنیا کے بہت سے ممالک نے کھل کر حمایت کی اورکررہے ہیں مگر انکی کمک اور مدد کرنے کی وجہ سےکسی کو کوئی سبکی اور شرمندگی نہیں ہورہی۔ اور تو اور پاکستان جو کشمیر کو اپنی شے رگ سمجھتا اور کہتاہے۔ کبھی حافظ سعید اور دوسرے کشمیری لوگوں کو کبھی گرفتار کرتا ہے تو کبھی انکو بے عزت کرتا ہے کیونکہ اس طرح کے اعمال کو دنیا میں تحفظ دینا مشکل ہے اور وہ ریاستیں دنیا کے نظام میں اس طرح کے لوگوں کی مدد اور کمک کرکے سبکی محسوس کرتے ہیں۔
***جاری ہے***
Exit mobile version