ہمگام اداریہ  ،؛   حالیہ دنوں ایک انگریزی روزنامے میں بلوچ وطن پر قابض پاکستان اور ان کی استعصالی معاون چین کی منصوبہ سی پیک کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چین بلوچستان کے بلوچ قبائلی علیحدگی پسندوں سے رابطے میں رہ کر اپنے 60 بلین ڈالر کے منصوبے پر ان سے مذاکرات کی ہے۔اس اخبار کی لمبی چوڑی رپورٹ کے دیگر نقاط اور زمینی حقائق پر کسی نے غور کرنے کی زحمت نہ کی۔ بلکہ اس رپورٹ کی صرف ایک ہی نقطے کو مکمل سچ بنا کر دانستہ طور بلوچ آزادی پسندوں کے سالہاسال کی محنت و بے پناہ جانی و مالی قربانیوں اور بلوچ سیاسی قدروں کو نظر انداز کرکے باہمی رشتوں کی اہمیت و ضرورت کو پس پشت ڈال کر کسی خاص منصوبے کے تحت یا شاید کسی منفی نیت سے اس رپورٹ کو دانستہ اور غیر داسنتہ بڑاچڑھا کر پیش کرکے بلوچ عوام میں عام کرنے کی کوشش کی گئی۔جس سے اس بات کا زیادہ امکان پیدا ہوا کہ عوام کے ایک مخصوص طبقہ کو خواہ مخواہ مخمصے اور تشویش میں ڈالنے کی کوشش کی گئی۔جو کہ ایسے معاملے کی تہہ کو آسانی سے سمجھنے میں دقت کا سامنا کرتے ہیں۔ تاوقتیکہ جب تک اس رپورٹ سے متعلق اصل کرداروں کی جانب سے اس رپورٹ اور رابطوں کی تردید نہ کی گئی ہو۔اس دوران بعض افراد نے اس رپورٹ کی تشحیر میں مختلف زرائع استعمال کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ جس سے برائے راست حقیقی بلوچ لیڈر شپ اور آزادی پسند تنظیموں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور عوام کے اندر ان کی اعتبار و اعتماد کو دانستہ طور نقصان پہنچانے کے علاوہ کچھ خاص فائدہ نظر نہیں آیا۔ جس سے اس بات کا خدشہ پیدا ہوا کہ آزادی پسند تنظیموں اور لیڈر شپ کے درمیان فاصلوں کو اور بھی زیادہ کرکے مزید بڑھایا جائے ۔اور کچھ کردار سیاست و تحریر کے نام پر یہ غور کیے بغیر اس رپورٹ کو یہ خیال نہ رکھتے ہوئے عام کرنے کی کوشش کی گئی کہ آیا بلوچستان میں قبائلی علیحدگی پسند گروہ وجود رکھتے ہیں کہ نہیں ؟ اور دوسری بات کہ چین علیحدگی پسند گروہ سے مذاکرات کی ہے اگر دیکھا جائے ایک اخبار میں چھپنے والے رپورٹس کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ لیکن رپورٹس کی نوعیت و اس سطح کے خفیہ ڈیلنگ کی باتیں کسی اخبار تک پہنچنے اور مشتہر ہونے پر سوال بھی تو اٹھ سکتا ہے ۔ پہلا نقطہ. اگر چین مذاکرات کر چکی ہے تو پھر اسے اس بات کو مخفی رکھ کر زیادہ فائدہ مل سکتا تھا یا مشتہر کر کے ؟ دوسرا نقطہ. بلوچ علیحدگی پسند خصوصا قبائلی گروپس کی نشاندہی کی گئی جبکہ بلوچستان میں کوئی بھی قبائلی و علیحدگی پسند گروہ وجود ہی نہیں رکھتا. جو سی پیک جیسے متنازعہ منصوبوں سے متعلق جن کا کوئی کردار اب تک سامنے آیا ہو ۔ایسے میں اگر چین کا اشارہ کچھ سیاسی ہمنواوں کی طرح حیر بیار مری، زامران مری و براہمدغ بگٹی کی طرف ہے تو کچھ افراد کی زور وشور اور چیخ و پکار اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ وہ ابھی تک بلوچ قومی جہد کو قبائلیت سے جوڑ کر اصل میں اس کی قومی حیثیت کو اب تک ماننے سے انکاری رہے ہیں۔ جو کہ از خود ان کی سیاسی شعور و سنجیدگی پر ایک اہم اور نیا سوال ابھرتا ہے ۔ اگر اس نقطے پر دیکھا جائے تو چین اور اس اخبار نے ایک ہی وار سے کئی شکار کیھلنے کی ناکام کوشش کی۔ مذاکرات کے نام پر ایک اختراعی خیال کو اخبارات تک پہنچایا۔تاکہ بلوچ آزادی پسند لیڈران اور تنظیموں کے درمیان ایک دوسرے پر شک اور بدگمانی کو اور بھی زیادہ کیا جائے ۔اس رپورٹ کو پیھلانے والوں نے اتنا گوارا بھی نہیں کیا کہ تحقیق سے حقیقت کو معلوم کیا جائے یا اصل حقائق تک پہنچنے کیلئے خاموش رہ کر صبر سے بھی کام لیا جاسکتا تھا۔ اگر مذاکرات ہو بھی گئے ہے تو دوسری تنظیمیں بھی بہت ہی مضبوط پوزیشن میں ہے وہ تو اس یک طرفہ مزاکرات کو سبوتاژ بھی کرسکتے تھے۔ آیا یہ قیاس کرنا مناسب ہوگا کہ چین نے دو شکار والا تیر اس بنیاد پر کھیلا تاکہ ایک طرف آزادی پسندوں کو ایک دوسرے پر شک کرنے پر مجبور کرے جبکہ دوسری طرف مضبوط سے مذاکرات کے بعد بات کو تھوڑ مروڑ کر مذاکرات کو قبائلی علیحدگی پسندوں کی جانب موڑا جائے. اس درمیان قیاس آرائیاں بہت ہیں البتہ چین کی فنانشل ٹائم کے توسط سے اس رپورٹ اور جن پر الزام لگایا گیا ہیں کی اہمیت و حیثیت کی قلعی اس وقت کھل سکتی ہے جب وہ بلوچ سرزمین پر موجود اس استحصالی سی پیک منصوبے کے خلاف پہلے سے سیاسی و مزاحمتی جہد میں کوئی دوسرا سیاسی و مزاحمتی پروگرام اور موقف عوام کے سامنے لایاجائے جب کہ زمینی عقائق اس کے برعکس ہے ۔کسی تنظیم و لیڈر کو تو ایسے اختراعی اور سازشی بیان و رپورٹ پر اپنی صفائی کی کیا ضرورت پیش آئی جب الزام کی حیثیت ہی مشکوک تو آپ کو ضرورت نہیں کہ اپنی صفائی اس طرح سے دے یا اسکی وضاحت کریں۔ فنانشل رپورٹ کی حیثیت اتنی جاندار نہیں جتنا اسے بنا کر پروموٹ کیا جارہا ہے۔ کیونکہ اس میں جو قبائلی علیحدگی پسند کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ چین کی سرمایہ کاروں کو ایک امید دینا ہے کہ بلوچ جہد اب تک قبائلیت کے زیر اثر ہے اور ان سے مذاکرات چل رہے ہیں اور بقول چینی سفیر کے اب بلوچ مزاحمت کار چین کے لیے کوئی خطرہ نہیں رہے . تاکہ سرمایہ کار اس رپورٹ کو من و عن قبول کرکے گوادر میں سرمایہ کاری کے لیے سوچنے پر مجبور ہوں جہاں تک بات پاکستانی میڈیا و چینی حکومت کی ہیں۔ انھوں نے واضع الفاظ میں سرکاری سطح پر اس رپورٹ کی تردید کی ہے جبکہ بلوچ آزادی پسندوں کے اندر جان بوجھ کر اس طرح سے بدگمانی پیھلائی گئی تاکہ وہ ایک دوسرے پر شک کرکے پہلے سے سیاسی و تنظیمی اختلافات کو اور بھی ہوا دیا جائے جس کا پورا نقصان بلوچ آزادی کی قومی تحریک کو ہوسکتا ۔ وقت و حالات کی نزاکت یہ ہے کہ بلوچ آزادی پسند مزاحمتی تنظیمیں اور سیاسی پارٹیاں چین کو اپنے سیاسی بیانات دینے کی بجائے بلوچستان میں مزاحمتی، عمل و بیرونی دنیا میں سیاسی سرگرمیوں کو منظم انداز میں مزید وسعت دے ۔ اور یہی وقت کی ضرورت ہے کہ اپنی عوام اور دنیاکو صفائی دینے سے زیادہ چین کو سیاسی و مزاحمتی عمل سے جواب دے نہ کہ بلوچ سیاست میں کچھ خاص منفی عناصر جو کہ حقیقی بلوچ لیڈر شپ پر ناجائز الزام لگانے کو پیھلا کر انھیں بلاوجہ کٹہرے میں لانے کی کوشش تاکہ ان کی سیاسی ساکھ و قومی حیثیت کو دانستہ طریقے سے نقصان پہنچایا جائے ۔ لہزا آج وقت کی ضرورت ہے کہ بلوچ قوم کے وسیع تر قومی مفاد کو تحفظ اور آپسی بدگمانیوں کو ختم نہ سہی کم از کم ایسے منفی عناصر کی حوصلہ شکنی لازمی امر بن چکا ہے۔تاکہ اس سخت حالات میں بلوچ گلزمین کو درپیش لاحق خطرات کیلئے لازم ہے کہ ایسے کسی بھی افواہ اور سازش کو صبر و استحکام سے اس کے پس پردہ حقائق کو معلوم کرکے آئندہ کیلئے اس طرح سے اس کی روک تھام اور سدباب کیا جائے۔تاکہ آئندہ ایسے شرارتیوں کی شر سے اپنے عوام اور بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو اس قسم کے سازشی عناصر اور افواہوں سے بچایا جاسکے۔اور یہ کام بلوچ قومی آزادی کے تمام اسٹیک ہولڈرز کیلئے ایک چیلنج بن چکا ہے۔کہ وہ اس سے کس طرح نبرد آزما ہوکر اپنی قوم کے سامنے کیسے سرخروح بن سکتے ہیں ؟یہ آنے والے وقت اور ان کی سیاسی ادراک،صلاحیت کیلئے ایک اہم سوال بن چکا ہے!