شال: (ہمگام نیوز رپورٹ) شیطانستان (پاکستان) کی وزارت داخلہ نے ’غیرقانونی‘ غیرملکیوں کی موجودگی سے لاحق سلامتی کے مسائل اور معاشی نقصان کو اس کی فیصلے کی وجہ بتایا ہے۔ اس اقدام سے متاثر ہونے والوں میں بڑی اکثریت افغان شہریوں کی ہے۔ یہ لوگ اپنے ملک میں 44 سال سے جاری جنگوں اور معاشی مسائل کے باعث پناہ گزینوں کی حیثیت سے پاکستان آتے رہے ہیں۔
پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی تاریخ، ملک میں ان کی قانونی حیثیت اور انہیں درپیش موجودہ حالات کے بارے میں حقائق سے آگاہی مہم
:دنیا کا قانون اور پناہ گزین
جنیوا کنونشن برائے پناہ گزین 1951 کے مطابق کوئی بھی شخص جسے اپنے ملک میں اس کی مذہبی، سیاسی، نسلی یا کسی معاشرتی گروہ سے وابستگی کی وجہ سے جان کا خطرہ ہو اور وہ کسی دوسرے ملک نقل مکانی کر جائے تو وہ پناہ گزین قرار دیے جانے کا اہل ہے۔ جرائم میں ملوث افراد اس ذیل میں نہیں آتے۔
کنونشن کے مطابق پناہ گزین کو میزبان ملک میں رہنے، تعلیم کے حصول، کام کرنے، آزادانہ نقل و حرکت، صحت کی سہولیات اور عدالتوں تک رسائی کے حقوق حاصل ہیں۔ میزبان ملک پر لازم ہے کہ وہ نامکمل سفری دستاویزات سے محروم پناہ گزینوں کے خلاف کارروائی نہ کرے اور اگر انہیں اپنے ملک میں جان کا خطرہ ہو تو زبردستی واپس نہ بھیجے۔
تاہم پناہ گزینوں کی جانب سے میزبان ملک کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی اور امن و امان خراب کرنے کی صورت میں میزبان ملک ان سے پناہ گزین کا درجہ واپس لے سکتا مقبو ضہ بلوچستان اور پشتونستان میں افغان پناہ گزینوں کی تاریخ پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی آمد 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد شروع ہوئی۔ امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے دفتر (اوچا) کے مطابق 1981 تک ان کی تعداد 20 لاکھ اور 1990 تک 32 لاکھ ہو چکی تھی۔ سوویت یونین کی واپسی کے بعد 1990 کی دہائی میں افغانستان کی خانہ جنگی کے دوران بھی پناہ گزین پاکستان آتے رہے۔ 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستان کا رخ کرنے والے افغانوں کی مجموعی تعداد 50 لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔ 2002 میں طالبان کی پہلی حکومت کے خاتمے کے بعد تقریباً 15 لاکھ افغانوں کی واپسی ہوئی اور 2012 تک یہ تعداد 27 لاکھ تک جا پہنچی۔ آئندہ دس برس میں وقتاً فوقتاً مزید افغان شہری اپنے ملک واپس جاتے رہے۔ 2021 میں افغانستان پر طالبان کی حکومت دوبارہ قائم ہونے کے بعد تقریباً 7 لاکھ افغانوں نے ایک مرتبہ پھر پاکستان میں پناہ لی۔
پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے مطابق ستمبر 2023 تک پاکستان میں تقریباً 31 لاکھ افغان شہری مقیم تھے۔
افغان شہریوں کی قانونی حیثیت:2006 سے پہلے افغان پناہ گزینوں کو قابض پاکستان کے مقبوضہ بلوچستان اور پشونستان میں رہنے کے لیے کسی قانونی شناختی دستاویز کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ 1980 کی دہائی میں انہیں حکومت کی جانب سے ایک پاس بُک (شناخت نامہ) جاری کی جاتی تھی اور وہی ان کی واحد شناخت تھی۔ 2005 میں ‘یو این ایچ سی آر’ کے تعاون سے پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی تفصیلی مردم شماری کروانے کے بعد انہیں رجسٹرڈ کیا گیا۔ رجسٹریشن کروانے والوں اس کے ثبوت پر مبنی کارڈ جاری کیے گئے جنہیں ‘پروف آف رجسٹریشن’ (پی او آر) کارڈ کہا جاتا ہے۔ ستمبر 2023 سے پہلے ملک میں ‘پی او آر کارڈ’ کے حامل لوگوں کی تعداد تقریباً 13 لاکھ 33 ہزار تھی۔ اس کارڈ کی مدت 31 دسمبر 2023 کو ختم ہو رہی ہے۔
اگست 2017 میں پاکستان نے افغان شہریت کے حامل ایسے تارکین وطن/پناہ گزینوں کو ‘افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) جاری کرنے کا آغاز کیا جن کے پاس ‘پی او آر’ کارڈ نہیں تھا۔ ‘یو این ایچ سی آر’ کے مطابق جنوری 2022 تک پاکستان میں ‘اے سی سی’ کارڈ کے حامل افغان شہریوں کی تعداد تقریباً 8 لاکھ 40 ہزار تھی۔ اس کارڈ کی بدولت غیررجسٹرڈ افغانوں کو پاکستان میں قیام کی سہولت ملی اور ملک بدری، حراست اور قید سے تحفظ حاصل ہوا۔
اگست 2021 میں افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد تقریباً 7 لاکھ افغان پناہ گزین پاکستان آئے۔ تاہم حکومت نے ان لوگوں کو رجسٹرڈ نہیں کیا۔ ان کے علاوہ کئی سال سے تقریباً 2 لاکھ ایسے افغان بھی پاکستان میں مقیم تھے جن کے پاس کوئی شناختی دستاویز نہیں ہے۔
کس فرد کو پناہ گزین کا درجہ دینے، میزبان ملک میں اس کے حقوق اور پناہ گزینوں سے متعلق اس ملک کے فرائض کی وضاحت 1951 کے جنیوا کنونشن اور 1967 کے پروٹوکول یا پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کے ذریعے ہوتی ہے۔
اس کنونشن کے تحت کوئی بھی ملک اپنی سرحد میں داخل ہونے والے کسی بھی غیر ملکی کو پناہ گزین قرار دینے یا نہ دینے کا مجاز ہے۔ اس وقت دنیا میں 149 ممالک دونوں یا کسی ایک کنونشن کا حصہ ہیں۔ قابض پاکستان کی جارحانہ پالیسی کے بعد ‘یو این ایچ سی آر’ اور عالمی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے مطابق ستمبر 2023 سے 16 دسمبر تک 4 لاکھ 71 ہزار سے زیادہ افغان شہری اپنے ملک واپس جا چکے تھے۔ ان میں 95 فیصد تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کے پاس پاسپورٹ نہیں تھا دیگر میں 4 فیصد تعداد پی او آر کارڈ کے حامل افغانوں کی ہے اور ایک فیصد ایسے ہیں جن کے پاس ‘اے سی سی’ کارڈ تھا۔
قابض پاکستان نے اعلان کر رکھا ہے کہ 31 دسمبر کے بعد ‘پی او آر’ کارڈ کی مدت میں مزید توسیع نہیں کی جائے گی۔ اس تاریخ کے بعد ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم لوگوں کو ماہانہ 100 ڈالر جرمانہ ہو گا۔’یو این ایچ سی آر’ نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ ان لوگوں کی ملک واپسی میں یکم جنوری 2024 کے بعد کم از کم ایک سال کی مزید توسیع کرے۔ قابض نے کسی تیسرے ملک کو جانے والے افغان پناہ گزینوں کو 28 فروری 2024 تک ملک میں قیام کی اجازت دے دی ہے۔
شیطانستان (پاکستان ) کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کہہ چکے ہیں کہ جن افغان پناہ گزینوں کے پاس ‘اے سی سی’ کارڈ یا ملک میں قانونی قیام سے متعلق دستاویزات موجود ہیں انہیں پاکستان سے بے دخل نہیں کیا جا رہا۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ ایسے لوگوں کے بارے میں آئندہ کون سی پالیسی اختیار کی جائے گی۔لیکن دوسری طرف غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوے افغان باشندوں نے کہا مقبوضہ بلوچستان اور پشونستان کے لوگوں نے انکو عزت اور اعترام دیا لیکن قابض پاکستانی پولیس اور فوج ان سے رشوت لیکر انکو تنگ کرتا رہا پاکستان کی مثال سانپ کی ہے جو اسے دودھ دیتا ہے یہ اسی کو کاٹتا ہے کیونکہ شیطانستان کی فطرت فراڈ اور دھوکہ دی کا ہے جس نے افغانوں کو روس اور امریکہ کی جنگ میں بھج کر انکی سرزمین تباہ کرکے خود ڈالر کمائے اب انکو بے عزت کررہا ہے۔