یکشنبه, اکتوبر 13, 2024
Homeخبریںقابض پاکستانی آفیسر کو تاوان ادا کرنے کے باوجود حفیظ اللہ محمد...

قابض پاکستانی آفیسر کو تاوان ادا کرنے کے باوجود حفیظ اللہ محمد حسنی کی مسخ شدہ لاش برآمد

 

چاغی (ہمگام نیوز) اطلاعات کے مطابق 4 سال پہلے 30 اگست 2016 کو قابض پاکستانی فوج کے ہاتھوں جبری طور پر اغواء ہونے والے بلوچ نوجوان کی لاش برآمد ہوئی ہے۔

لاش مقبوضہ بلوچستان کے علاقے چاغی پل چوٹو کے مقام سے ملی ہے۔

لیویز ذرائع نے لاش ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسخ شدہ لاش کو پرنس فہد ہسپتال دالبندین منتقل کردیا گیا ہے۔ لاش کو مذکورہ علاقے میں دفنا دیا گیا تھا حالیہ بارشوں کے باعث لاش ظاہر ہوگئی تھی جس کے بعد انتظامیہ کو اطلاع کی گئی۔

مقبوضہ بلوچستان سے چار برس پہلے قابض پاکستانی فوج کے ہاتھوں جبری اغواء کے شکار حفیظ اللہ محمد حسنی کی والدہ بی بی شاری کی زندگی میں وہ لمحہ سب سے زیادہ خوشی کا تھا جب ان سے حفیظ اللہ کی بازیابی کے لیے بھاری رقم وصول کرنے والے فوج کے میجر کو سزا ہوئی۔

دراصل حفیظ اللہ کی والدہ کو اس افسر کو سزا ملنے پر خوشی نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ تو اس لیے خوش تھیں کہ اس کے نتیجے میں آنے والے دنوں میں ان کے بیٹے کی بازیابی کی راہ ہموار ہو گی۔

بی بی شاری نے کہا کہ جب اس افسر کو سزا ہوئی تو انھیں یہ یقین ہو گیا تھا کہ اب ان کا بیٹا گھر آ جائے گا اور وہ عمر کا بقیہ حصہ بیٹے کی گمشدگی کے غم کے بغیر گزاریں گی مگر افسر کو سزا ملنے کے ایک سال گزرنے کے بعد بھی ایسا نہیں ہو سکا۔

بی بی شاری نے مزید کہا کہ وہ اب اپنی زندگی کے بقیہ دن اس انتظار میں گزار رہی ہیں کہ کب ان کا بیٹا آئے گا اور اس کے لیے ہر روز ان کی نظریں گھر کے دروازے پر لگی رہتی ہیں۔

حفیظ اللہ محمد حسنی کا تعلق مقبوضہ بلوچستان کے ایران اور افغانستان سے طویل سرحد رکھنے والی سرحدی ضلع چاغی سے ہے۔ وہ چاغی کے ہیڈ کوارٹر دالبندین میں کلی قاسم کے رہائشی ہیں اور پیشے کے اعتبار سے کاشتکار ہیں۔

ان کے چھوٹے بھائی نعمت اللہ نے بتایا کہ وہ تین بھائی ہیں اور حفیظ اللہ نے دالبندین کے قریب چھتر کے علاقے میں ایک ٹیوب ویل کو سنبھالا ہوا تھا اور وہاں زمینوں پر کاشتکاری کرتے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ حفیظ اللہ 30 اگست 2016 سے لاپتہ ہیں اور ان کے انتظار میں ان کی والدہ اور خاندان کے لوگ ایک اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہیں۔

دو ڈھائی سال کے انتظار کے بعد حفیظ اللہ کی خواتین رشتہ داروں نے کوئٹہ میں ان کی بازیابی کے لیے کچھ دن علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ میں بھی حصہ لیا تھا۔ یہ کیمپ طویل عرصے سے بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی کے لیے قائم ہے۔

اس احتجاج میں حفیظ اللہ کی چھوٹی بیٹی بھی اپنی والدہ اور دادی شاری کے ساتھ محمد حسنی کی تصویر تھامے نظر آتیں تھیں۔

حفیظ اللہ کے چھوٹے بھائی نعمت اللہ نے کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بھائی کو سکیورٹی فورسز کے ایک میجر نے 30 اگست 2016 کو ان کے گھر کلی قاسم خان سے اغواء کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ خاندان کے لوگوں کا خیال تھا کہ شاید ان کے بھائی کو کسی تفتیش کے لیے لے جایا گیا ہے اور تفتیش کا عمل مکمل ہونے کے بعد ان کو چھوڑ دیا جائے گا لیکن طویل عرصے تک ان کا کوئی اتا پتا نہیں مل سکا۔

انھوں نے بتایا کہ جب بھائی طویل عرصے بعد بھی نہ گھر آیا اور نہ انھیں یہ بتایا گیا کہ وہ کہاں ہیں تو خاندان کی تشویش میں اضافہ ہواجس کے بعد انھوں نے میجر سے رابطہ کیا۔

حفیظ اللہ کے بقول میجر نے ان کی بازیابی کے لیے بھاری رقم کا مطالبہ کیا۔

نعمت اللہ نے بتایا کہ انھوں نے اپنی بعض جائیدادیں اونے پونے بھیچنے کے علاوہ رشتہ داروں اور دیگر افراد سے قرضہ لیکر 68 لاکھ روپے اکٹھے کرکے اس میجر کو ادا کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس رقم کی ادائیگی کے بعد ان کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ اب ان کے بھائی کو چھوڑ دیا جائے گا لیکن اس کے باوجود ان کی بازیابی عمل میں نہیں آئی جس کے بعد انہوں نے دالبندین میں اس سیکورٹی فورس کے ہیڈکوارٹر سے رابطہ کیا جس سے یہ افسر وابستہ تھے۔

نعمت اللہ کے مطابق اس کے بعد میجر کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور انھیں سزا ہوئی۔
حفیظ اللہ کے خاندان کے اس الزام کے بعد مذکورہ میجر کا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل ہوا تھا۔
فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے دوران انھیں اختیارات سے تجاوز کا مرتکب پاتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے اگست 2019 میں اس حوالے سے جو بیان جاری کیا گیا تھا اس میں یہ کہا گیا تھا کہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی سزا کی توثیق کی ہے۔

سیکورٹی فورسز کے افسر کی سزا کے باوجود حفیظ اللہ کی بازیابی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔

حفیظ اللہ کے چھوٹے بھائی نعمت اللہ نے بتایا کہ جب یہ بات ثابت ہوئی کہ مذکورہ افسر نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے تو ان کے خاندان کو ایک بار پھر حفیظ اللہ کی بازیابی کی امید پیدا ہوئی لیکن تاحال وہ بازیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بھائی کی گمشدگی کے باعث ان کا خاندان اذیت ناک مسائل سے دوچار ہے۔
’ایک طرف بھائی لاپتہ ہے تو دوسری جانب سکیورٹی فورسزکے میجر کو پیسے دینے کے لیے جن لوگوں سے قرضہ لیا گیا تھا اب وہ لوگ ان کے خاندان کو قرضے کی واپسی کے لیے تنگ کر رہے ہیں۔‘

نعمت اللہ کا مطالبہ ہے کہ مذکورہ افسر سے ان کے بھائی سے متعلق پوچھ گچھ کی جائے تاکہ ان کی بازیابی ممکن ہو سکے۔

انھوں نے حکومت اور سکیورٹی سے متعلقہ اداروں سے اپیل کی کہ وہ ان کے خاندان کو اذیت ناک صورتحال سے نجات دلوانے کے لیے ان کے بھائی کی بازیابی کو یقینی بنائیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر ان کے بھائی کے معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا گیا تو وہ ان کی بازیابی کے لیے 20 ستمبر کو لانگ مارچ کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز