یکشنبه, سپتمبر 22, 2024
Homeخبریںقاسم سلیمانی امریکیوں کے لیے خطرہ تھا، صدر نے حکم دیا اسے...

قاسم سلیمانی امریکیوں کے لیے خطرہ تھا، صدر نے حکم دیا اسے ختم کر دو: پومپیو

واشنگٹن ( ہمگام نیوز) سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پہلی مرتبہ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کے بیرون ملک کارروائیوں کے لئے مشہور القدس بریگیڈ کے کمانڈر قاسم سلیمانی کو ہلاک کرنے کی خاطر کیے جانے والے آپریشن کی تفصیلات بیان کی ہیں۔
دبئی سے عربی زبان میں نشریات پیش کرنے والے ’’العربیہ‘‘ نیوز چینل کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے پومپیو نے کہا ’’کہ امریکی انتظامیہ نے وارننگز سنیں کہ اگر اس نے جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کیا تو جنگ چھڑ جائے گی۔ یہ وہی دھمکیاں ہیں جو امریکی انتظامیہ نے اس وقت سنی جب اس نے جوہری معاہدے سے دستبرداری کا فیصلہ کیا۔ ایسی ہی وارننگ ہمیں اس وقت دی گئی تھیں جب امریکا نے تل ابیب سے اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کیا تھا۔‘
پومپیو نے کہا ’’کہ امریکا نے قاسم سلیمانی کو اس لیے مارا کہ وہ امریکی عوام کے لیے خطرہ تھا۔ سلیمانی 500 امریکیوں کو مارنے کی سازش میں ملوث تھا اور امریکی انتظامیہ اس سازش کو ناکام بنانے میں کامیاب رہی۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا ’’کہ امریکا نے عراق میں اپنے اثاثوں اور شام میں اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ایک طویل عرصے سے کام کیا ہے۔‘‘

سابق امریکی وزیر خارجہ نے نشاندہی کی کہ امریکا القدس بریگیڈ کی نقل وحرکت پر نظر رکھے ہوئے تھا اور سلیمانی کو ہلاک کے منصوبے پر مسلسل کام کر رہا تھا تاکہ اسے وسائل، اثاثوں اور شہریوں پر حملے کا موقع نہ ملے۔ اس لیے امریکی صدر نے یہ فیصلہ جاری کرتے ہوئے حکم دیا کہ ’سلیمانی کو ختم کرو‘۔
ایران اور دنیا کو ہلا کر رکھ دینے والے اس سب سے بڑے واقعے کو دو سال اور چند ماہ گزر چکے ہیں۔ تین جنوری 2020ء کو امریکی حکام نے اعلان کیا تھا کہ امریکا نے ایک خصوصی آپریشن میں بغداد میں قاسلم سلیمانی کو قتل کر دیا ہے۔
اس وقت سے لے کر آج تک واقعے کے حقائق کسی حد تک پوشیدہ رہے کیونکہ آپریشن کی نوعیت اور اس دن کیا ہوا اس کے بارے میں کوئی واضح تفصیلات نہیں ہیں۔
تاہم نئی معلومات حال ہی میں سامنے آئیں کہ امریکی افواج کی 3 ٹیمیں جو اس وقت عراق میں موجود تھیں، بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر خفیہ مقامات پر ہدف یعنی قاسم سلیمانی کی نقل وحرکت کا انتظار کر رہی تھیں۔

دیکھ بھال کے عملے کے بھیس میں نگرانی

یاہو نیوز ویب گاہ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے مینٹیننس ورکرز کے بھیس میں قاسم سلیمانی پر نظر رکھی۔ وہ ہوائی اڈے پر دیگر پرانی عمارتوں یا سڑک کے کنارے گاڑیوں میں چھپے ہوئے تھے۔
معلومات سے یہ بھی پتہ چلا کہ اس دن بغداد میں ایک ابر آلود سرد رات تھی، اور ہوائی اڈے کے جنوب مشرقی حصے کو فوجی تربیت کے لیے مختصر نوٹس پر بند کر دیا گیا تھا۔ اس حوالے سے عراقی حکومت کو مطلع کیا گیا تھا۔
جب کہ تینوں سنائپرز ٹیمیں ہوائی اڈے سے رسائی والی سڑک پر ’’ہدف‘‘ کے روٹ سے 600 سے 900 گز کے فاصلے پر تعینات تھیں۔ ایک سنائپر کے پاس کیمرے سے لیس ایک ٹیلی سکوپ تھی جو براہ راست بغداد میں امریکی سفارت خانے تک پہنچائی گئی تھی جہاں ڈیلٹا فورس کا ایک کمانڈر معاون فوج کے ساتھ گراؤنڈ میں موجود تھا۔

سلیمانی دمشق سے آئے تھے

دمشق سے آنے والی پرواز 3 جنوری 2020 کو آدھی رات کے بعد مقررہ وقت سے کئی گھنٹے تاخیر سے اتری۔ اس کے بعد 3 امریکی ڈرونز نے ہوائی اڈے کو گھیرے میں لے لیا۔
جب طیارہ رن وے سے دور ہوائی اڈے کے بند حصے کی طرف بڑھ رہا تھا زمینی عملے کے بھیس میں ایک کرد آپریٹر نے طیارے کو رن وے پر رکنے کی ہدایت کی۔ جونہی ٹارگٹ طیارے سے اترا تو کرد افسران جو کہ خود کو سامان ہینڈلر ظاہر کر رہے تھے نے فوری طور پر قاسم سلیمانی کی شناخت کی۔

سلیمانی ابھی بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پہنچے اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دو گاڑیوں میں سوار ہوئے تھے ان پر ڈرون سے حملہ کر دیا گیا۔
پھر دو کاریں پیچھے ہٹ گئیں۔ ان میں سے ایک سلیمانی کو ہوائی اڈے سے نکالنے کے لیے سڑک پر لے گئی اور تین ڈرون فضا میں چکر لگا رہے تھے۔ ان میں سے دو ہیل فائر میزائلوں سے لیس تھے۔ سنائپر کے ہتھیار تیار تھے اور ہدف کو نشانہ بنا رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز