کوئٹہ (ہمگام نیوز ) بلوچ سالویشن فرنٹ کے چیئر مین سعید یوسف بلوچ سیکریٹری جنرل اوربلوچ طن موومنٹ کے سربراہ میر قادر بلوچ نے اپنے مشترکہ پالیسی بیان میں کہاہے کہ بی آرپی کے سربراہ براہمدغ بگٹی کی جانب سے قومی آزادی کے موقف سے دستبرداری شہید اکبر خان بگٹی اور ہزاروں بلوچ شہداء کے روح کو ٹھیس پہنچانے کی مترادف ہے ہمیں امید اور توقع نہ تھی کہ آزادی کی اس کھٹن اور صبر آزما جدوجہد میں براہمدغ بگٹی اتنی جلدی حوصلہ ہارکر قومی آزادی کی تاریخی و اصولی موقف سے پیچھے ہٹے گی لیکن ایک بات واضح ہے کہ اس جدوجہد میں لوگ تھک جاتے ہیں بک جاتے ہیں لیکن جہد آزادی جاری رہتی ہے کسی ایک فرد کی جانب سے آزادی کی جدوجہد سے علیحدگی تحریک آزادی کو متاثر نہیں کرسکتا تحریک آزادی سرداروں نوابوں اور نواب زادوں کی ہاتھوں سے نکل چکاہے یہ ان کی جائیداد اور میراث نہیں اور نہ ہی ان کا محتاج ہے بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو ہمیشہ عام بلوچوں نے اپنی خون سے ایندھن دی ہے اور آج بھی عام بلوچ کا کنٹریبیوشن سب سے زیادہ ہے ماسوائے ایک دو کے دیگرسارے سردار و نواب توسیع پسند سے جدی پشتی شانہ بشانہ رہے ہیں ان میں سے جو آزادی کی تحریک کے ساتھ ہمگرنچ ہوئے وہ نوابی اور سرداری کے فرسودگیون سے نکل کر غلامی کے دیئے ہوئے اس منصب کو ٹھکراکر عام بلوچ کے ساتھ ہم فکر ہوئے اور وہ استقامت کے ساتھ جہد مسلسل پر یقین رکھتے ہیں لیکن جو لوگ اپنی نوابی اور سرداری سے دستبردار ہونے کے بجائے آزادی سے دستبردار ہوجاتے ہیں وہ قوم کے قائد نہیں ہوتے وہ قومی قیادت کے اہل نہیں ہوتے کیونکہ آزادی کی جدوجہد میں اپنا سب کچھ قربان کرنا پڑتا ہے لوگ اپنی جان مال اور گھر بار قربان کررہے ہیں بغیر کسی تذبذب اور پچھتاوے کے وہ تمام تر مصائب و مشکلات کا دیدہ دلیری سے سامنا کرتے ہوئے قومی آزادی کے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں انہوں کہاکہ آزادی سے دستبرداری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جو لوگ زہنی اور جسمانی طور پر تھک چکے ہیں انہیں تحریک آزادی کے ساتھ جڑے رہنے کا کوئی حق نہیں بلوچ شہداء کے خون کا مینڈیٹ یہ نہیں کہ ان کے ارمانوں کا سودا کیا جائے انہوں نے کہاکہ براہمدغ بگٹی کی جانب سے بغیر کسی ایجنڈے کے دوطرفہ مزاکرات کی پر آمادگی جہد آزادی سے راہ فرار کی کھلی کوشش ہے بغیر کسی تیسری فریق کے موجودگی سے دوطرفہ مزاکرات سمجھوتہ اور غلامی قبول کرنے کی مترادف ہے ایسی بے معنی مزاکرات قومی آزادی کے ون پوائنٹ ایجنڈا کا حل نہیںآزادی کے موقف سے دستبرداری کے بعد مزاکرات کا معنی ریاست سے مراسم اور سمجھوتہ کے لئے ہاتھ بڑھانے کے سوا کچھ نہیں انہوں نے کہاکہ مزاکرات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا خونریزی میں کوئی بھی خوش نہیں لیکن ڈھونگ مزاکرات کے نام پر یہ چاہتاہے کہ بلوچ اپنی آزادی سے دستبردار ہوجائیں اور ایسا بلکل ناممکن ہے بلوچ قوم غلامی کے خلاف ایک تسلسل کے ساتھ جدوجہد کررہے ہیں اور بلوچ کسی بھی صورت میں آزادی کے نکتہ سے دستبردار نہیں ہوگا اورآزادی کے حصول کے لے مزاکرات کھبی بھی دوطرفہ نہیں ہوتا بلکہ تیسری قوت کی موجودگی لازمی ہے لیکن فی الوقت ریاست سے بات چیت کا کوئی جواز نہیں بنتاکیونکہ وہ بلوچ قومی آزادی کو تسلیم کرنے کے بجائے سمجھوتہ اور لے دے کی بات کریگا اور آزادی سے کم بلوچ قوم کو کچھ اور قبول نہیں انہوں نے کہاکہ براہمدغ بگٹی غلط فہمی کا شکار ہے ان کے غلط تاویلات اور نام نہاد فارمولے آزادی کا نعم البدل نہیں بلوچ تحریک ادارہ جاتی ہے کسی کی فردی حیثیت میں آزادی سے دستبرداری بلوچ قوم کا فیصلہ نہیں ان کی زاتی خوائش ہوگی اگر وہ ریاست کے طاقت سے مرعوب ہوکر راہ آزادی سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں کروڑوں بلوچوں کے قسمت کا فیصلہ ان کے اختیار میں نہیں بلوچ عوام وسیع تر قربانیاں دے رہے ہیں ان کی قربانیاں کا حاصل وصول صرف اور صرف آزادی ہے براہمدغ بگٹی اپنی اس آن ریکارڈ بیان اور موقف پر قوم کو ضرور جوابدہ ہے