دوشنبه, نوومبر 25, 2024
Homeخبریںقومی مفاد تحریر : نعیم خان

قومی مفاد تحریر : نعیم خان

قومی مفاد بین الاقوامی تعلقات کا ایک کلیدی تصور ہے ۔ جو کسی ملک کے سیاسی مفادات، سلامتی کے مفادات، اقتصادی مفادات، ثقافتی مفادات اور دیگر مفادات کو گھیرے ہوئے ہیں۔بنیادی طور پر ریاستی خودمختاری کے ساتھ کسی ملک کے سیاسی مفادات اس کے قومی مفادات کا بڑا حصہ ہوتے ہیں اور قومی سلامتی قومی مفادات میں سب سے بنیادی ہوتی ہے۔

قومی مفادات کا تصور قومی مفادات کی تشکیل، اس کی اہمیت، اس کے مقصد، اس کی اقدار اور ان اقدار کو حاصل کرنے کے طریقوں کے بارے میں بنیادی تصور کی عکاسی کرتا ہے۔

تزویراتی سوچ کے ایک اٹوٹ حصے کے طور پر قومی مفادات کا تصور، جو ایک بار تشکیل پاتا ہے، قومی حکمت عملیوں کی تشکیل اور نفاذ پر بہت زیادہ اثر ڈالے گا۔

علمی نقطہ نظر سے قومی مفادات کا تصور سوچنے کے انداز، ثقافتی روایات، اقدار، نظریات اور موضوع کی دیگر خصوصیات سے گہرا متاثر ہوتا ہے۔

ثقافتی روایات، اقدار، نظریات اور موضوع کی دیگر خصوصیات۔ مختلف اقوام، ممالک اور سماجی طبقات مختلف تاریخی ادوار میں قومی مفادات کے مختلف تصورات رکھتے ہیں۔

آج اکیسویں صدی میں دنیا کا ہر ممالک کی تعلقات ہو، جنگ ہو یا کسی ملک کو معاشی اصلاحات کے لئے تعاون ہو۔سب کے سب اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا۔

مجھے یاد ہے کہ ایک امریکی عہدیدار سے عراق جنگ کے بارے ميں پوچھا گیا کہ عراق جنگ امریکہ کے لیے کیا لازمی تھا اور اس جنگ میں ہزاروں عراقی جانوں کا نقصان ہوا ۔کیا یہ امریکا کا انسانی حقوق کی پامالی اور امریکی پالیسی کی ناکامی نہیں تو امریکی عہدیدار نے مختصر جواب میں کہا کہ عراق جنگ اس وقت ہمارے قومی مفاد میں تھا ۔

اگر دیکھا جائے تو اکیسویں صدی میں ہر بین الاقوامی معاملات دنیا کی بڑے طاقتور ممالک کے قومی مفادات کے اوپر منحصر کرتا ہے
چاہیے وہ عراق جنگ تھی، یا لیبیا کو غیر مستحکم کرنا تھا یا دنیا میں غلام قوموں کی آزادی کی جنگ کو اپنے مفاد کے مطابق استعمال کرنا یا چھوڑ دینا سب کا دارومدار قومی مفادات کے اوپر ہے۔

اسے طرح دنیا کے اندر آزادی کی جدوجہد کرنے والی تحریک یا قوموں کی وجود کا دار مدار سیاسی مفادات، سلامتی کے مفادات، اقتصادی مفادات، ثقافتی مفادات اور دیگر مفادات کو گھیرے ہوئے ہیں۔

بنیادی طور پر ریاستی خودمختاری کے ساتھ، کسی تحریک آزادی کے لیے سیاسی مفادات اس کے قومی مفادات کا بڑا حصہ ہوتے ہیں اور قومی سلامتی قومی مفادات میں سب سے بنیادی ہوتی ہے۔

دنیا میں کسی بھی آزادی کی تحریک کی کامیابی یا ناکامیابی کا دارومدار اس قوم کے لیڈر شپ کے اوپر منحصر کرتا ہے کہ خطے کی صورتحال کا جائزہ لے کر اپنے سیاسی مفادات ، اقتصادی مفادات، ثقافتی مفادات، سلامتی کے مفادات کا کس طرح حفاطت کرنا چاہئے کس کے ساتھ اپنے قوم کے مطابق تعلقات کو بڑھاوا دینا چاہئے اور کس سے کنارا کشی اختیار کرنا چاہیے ۔

اگر آج بلوچ تحریک کو دیکھا جائے تو شاید اب تک ہم قومی مفادات کے مفہوم کو بھی سمجھ نہیں سکے ہے۔شاید اکیسویں صدی کی سیاسی اور مسلح جدوجہد میں بلوچ نے نام بنایا ہوگیا لیکن قومی مفادات ہمارے سمجھ سے بالاتر ہے اب تک ۔

اس بات کا تعین ہمارے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بلوچ آج بھی الجھن میں ہے ۔

آج میرے ناقص سوچ کے مطابق اس الجھن سے نکلنے کا راستہ یہ ہے کہ بلوچ لیڈر شپ کو چاہتے کہ وہ اپنے درباروں میں بلوچ دانشوروں کو شامل کردے تاکہ وہ خطے کی بدلتے ہوئے صورتحال کا تنقیدی جائزہ لے کر بلوچ لیڈر شپ کے لیے عمدہ راستہ تلاش کر سکے اور بلوچ لیڈر شپ اس راستے پر عمل پیرا ہوکر اپنے سیاسی مفادات، سلامتی کے مفادات، اقتصادی مفادات، ثقافتی مفادات اور دیگر مفادات کی حفاظت کرسکے.

یہ بھی پڑھیں

فیچرز