Homeآرٹیکلزقومی یکجہتی، ایٹم بم سے طاقتور

قومی یکجہتی، ایٹم بم سے طاقتور

تحریر: وارث بلوچ

 

ہمگام کالم :

بندوق مار سکتا ہے، شکست نہیں دے سکتا، پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین، دیگر رہنماوں نے نہ پشتونوں کو کوئی طعنہ دیا کہ فلاں شخص یورپ نشین ہے، ہم یہاں گراونڈ پر لڑ رہے ہیں ہم ہی سیاسی جنرل، کرنل، لیفٹیننٹ اور میجر وغیرہ ہیں۔

پی ٹی ایم میں شریک لوگ بالخصوص اور پشتون قوم بالعموم گذشتہ کئی دہائیوں سے پس رہے تھے، پاکستان کے مسلط کردہ اس درپردہ جنگ میں مررہے تھے، پنجابی فوج ان کے گھروں میں گھستی، عورتوں کو بے عزت کرتی، بزرگوں کو زدکوب کرتی، بازاروں کو بلڈوز کرکے پشتونوں کا معاشی قتل عام کرتی رہی، گھروں، بستیوں، سکولوں، ہسپتالوں کو بے دریغ بمباری کرکے کھنڈرات میں بدل دیا۔

پشتون جب تک خاموش تھے اس وقت زیادہ تعداد میں مرے، پشتونوں کی سوچ اپاہج بنادی گئی، ہر ایک نے اپنی ذات سے بڑھ کر قوم کا نہیں سوچا، جو آگ ان کے بھائیوں کے گھروں پر لگائی جارہی تھی دوسرے پشتونوں نے اس آگ کو پرائے کا نقصان سمجھ کر آنکھوں پر غفلت کی پٹی باندھے رکھی۔جب تک اس آگ نے ان کے اپنے ہی گھر کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیا تھا تب تک وہ خاموش تھے۔ جب آگ بڑھتی چلی گئی تو ان کو محسوس ہونے لگا کہ آواز اٹھانے کے سوا دوسرا کوئی چارا باقی نہیں رہا۔

اس آگ، اس قومی نقصان کو وزیرستان کے گنے چنے باضمیر اشخاص منظور پشتین، علی وزیر اور محسن داوڑ اور دیگر نے دل سے محسوس کیا، یہاں سے پشتونوں کو ایک امید کی کرن اور ظلم سے راحت کا ذریعہ نظر آتا ہے۔

جیسے جیسے پشتون انفرادیت، گروہیت، پارٹی بازی اور سرحدوں کے خول سے نکلنا شروع ہوگئے ویسے ہی ظلم و جبر کی زنجیروں کی کڑیاں کمزور ہونے لگیں،  پہلے پشتونوں کو مار کر پنجابی فوج عالمی دنیا میں انہیں دہشت گرد قرار دیتی تھی۔ سینکڑوں گاؤں ملیا میٹ کئے گئے ہزاروں لوگ مارے گئے، لاکھوں بے گھر ہوئے لیکن دنیا میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا کیونکہ پشتون تب ایک قوم بن کر ابھرنے پر راضی نہیں تھی، قومی شعور اور اجتماعی درد کا احساس ناپید تھا اب جب پی ٹی ایم ابھری ہے اس نے سرحدوں کے خار دار تاروں کو اپنے دل و دماغ سے ادھیڑنا شروع کردیا، اب نہ ملک کا پی ٹی ایم کارکن یہ کہتا ہے کہ کوئی یورپ نشین ہے ہم گراونڈ میں لہذا ہم اعلیٰ و مقدس ہیں نہ بیرون ملک پشتونوں کو پی ٹی ایم کی سیاسی پروگراموں سے کوئی اختلاف ہے۔

کل تک جب پشتون قوم کی بجائے قبیلے، گروپس، دھڑوں میں منقسم تھے تب پنجابی ان کی چادر و چاردیواری پھلانگ کرانہیں مارتے تھے وہ کچھ نہیں کرسکتے تھے لیکن اب جب وہ قوم کی آواز بن گئے ہیں اب قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ کل پوری پشتون آبادیاں کھنڈرات میں تبدیل کردی گئیں کوئی کچھ نہیں بولا کیونکہ پشتون خود تقسیم تھے جب پشتون یکجا و منظم ہوئے اب وہ پنجابی فوجیوں کو بھرے بازاروں سے گھسیٹ رہے ہیں۔ کل پنجابی فوج ان کے نوجوانوں کو قطار میں کھڑا کرکے گولیوں سے بھون دیتی تھی پشتونوں کو جوں تک نہیں رینگتی لیکن اب نقیب اللہ محسود، ارمان لونی، عارف وزیر کی شہادت پر وزیرستان سے لیکر کوئٹہ، افغانستان سے لیکر پورے یورپ میں یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔

قومی بیداری کا یہی نتیجہ ہے کہ اب پشتون اپنا قومی بیانیہ متعارف کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ قومی بیداری سے ہی کامیابی کی شاہراہ نکلتی ہے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اپنی آواز دنیا تک پہنچانے کے لیے ہمیں بندوق کی طاقت کی ضرورت ہے، میری محدود علم کے مطابق دنیا کو بیدار کرنے اور آگاہ کرنے لیے قومی بیانیہ کو اجتماعی سوچ کے مطابق آگے بڑھانا ناگزیر ہے۔ پی ٹی ایم ہمارے سامنے زندہ مثال ہے جن کے پاس بندوق نہیں انٹرنیٹ کا ہیش ٹیگ ہے جس میں وہ گروہ بن کر نہیں بلکہ قوم بن کر ٹرینڈ کرتے ہیں ان کا ہر ٹوئیٹ اور پوسٹ بندوق کی گولی سے بھی تیز رفتاری اور بلند آواز سے دنیا کے ایوانوں میں بیٹھے گونگے، بہرے لوگوں تک پہنچ رہے ہیں۔
بندوق کی افادیت و اہمیت سے کوئی ذی شعور شخص انکار نہیں کرسکتا لیکن بندوق چلانے والوں کو سیاسی سوجھ بوجھ رکھنا ضروری ہوتا ہے تاکہ ان کی بندوق کو چالاک پنجابی غلط رنگ دینے میں کامیاب نہ ہوپائے۔

Exit mobile version