کوئٹہ ( ہمگام نیوز) گزشتہ کئی برس سے جاری بلوچ لاپتہ افراد اور شہدا کے کیمپ کو آج 4555 دن پورے ہوگئے اظہار یکجہتی کے لیئے مختلف طبقہ فکر کی شرکت کا سلسلہ جاری ہے
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں کراچی بلوچ یکجتی کیمٹی کے کنوینر بانک آمنہ بلوچ ماگنج بلوچ صابرہ بلوچ اور دیگر لوگوں نے آکراظہاریکجتی کی وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے مخاطب ہوکر کہا کہ 2000 سے لیکر آج تک جدوجہد جاری ہے جں میں عورتوں کی بہت بڑی قربانیاں ہے ان کی قربانیوں کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اس وقت پرامن جدوجہد ایک ایسے مقام پرہے جسے مخالف سمتوں سے تضادات وانتشار پیدا کر نے کی کو ششں کے ساتھ دشمن کی طرف کئی حربے آزماۓ جارہے ہیں خاص کر مزہبی اور قبائلی عناصر کو پرامن جدوجہد کے خلاف استمال کیا جارہا ہے ساتھ ہی پاکستان تمام جنگی اصولوں کو پامال کرتے ہوۓ آج عام آبادیوں پر بمباری بچوں اور عورتوں کو شہید کرنے کے ساتھ جبری طور أٹھاکر غائب کیاگیا جن کے بارے میں کسی کوپتہ نہیں کہ کدھر اور کی حال میں ہیں ہمیں ایک وحشی دشمن کاسامنا ہے جوانسانی اقداری تمام حدیں پارکرچکی ہے آۓ دن بلوچ فرزندوں کی جبری طور اغوا روز معمول بن چکا ہے جیسے کہ الجرائر میں سامراج فرانس اور بنگہ دیش میں اسی پاکستان کی جبری داستا نہیں مشہور ہیں دشمن جائل فرسودہ نظام کا پیدا وار قرار دیکر ہم پر جبری کرکے اپنی حاکمیت برقرار رکھنے کی کوشش کررہا ہے حاکم سمجھتاہے کہ صرف ظلم برداشت کرسکتے ہیں مگر آج بلوج قوم نے ثابت کی ہے کہ وہ پرامن جدوجہد کی علم وشعور کے ساتھ کرسکتا ہے پرامن جدوجہد میں عورتوں کا اہم کردار ہوتا ہے اسی طرح بلوچ قومی پرامن جدوجہد میں بڑے پیمانے پر بلوچ عورتوں کی شرکت حصہ داری بھی تاریخ کے اوراق میں لکھی جارہی ہے اس عمل کے خائف سے پاکستان نے عورتوں کو جبری اغوا کرنے کا سلسلہ شروع کی ہے تاکہ مرد حضرات سمیت پرامن جدوجہد سے دور ہیں بلوچستان کی اس صورت حال پاکستانی آزاد میڈیا کے دعویدار خاموش تماشائی بنے بیھٹے ہیں اسے ظاہر ہوتا ہے یہ میڈیا صرف اپنے مفادات کے لیے ہیں اس سے بڑھ کراور نہیں
اسلام آباد کی چھوٹی سی خبرکو بریکنگ نیوز کروزراکی دعوتوں کو گھنٹوں کوریج دیتے ہے مگر بلوچستان میں کئی ہزار بلوچ نوجوان اور عورتیں پاکستانی خفیہ اداروں کی تھویل میں ہیں جن کو روزانہ کی بنیاد تشدد کے ذریعے شہید کر کے مسخ شدہ لاشیں پھنکی جارہی ہیں ۔
مگر میڈیا خاموش ہے ۔