کوئٹہ (ہمگام نیوز) لاپتہ افراد شہدا کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4603 دن ہو گئے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس أو کے زونل صدر شکور اور ساتھی این ڈی پی کے مرکزی رہنما رشید بلوچ عبدالغنی بلوچ انسانی حقوق کے ایکٹوسٹ حمیدہ نور نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی وی بی ایم پی کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ قومی سوال ایک تاریخی اور حل طلب مسئلے اور بلوچ لاپتہ فرزندوں کا مسئلہ بھی اس سوال سے جڑی ہوئی ہے جبری الحاق اور قبضے کے بعد سے بلوچ قوم کی زندگی اس ریاست نے اجیرن کر دی ہے کیونکہ بلوچ قوم نے اس جبری قبضے کے خلاف مسلسل پُرامن جدوجہد کی ہے بلوچ فرزندوں کو جبری لاپتہ کرنے کا سلسلہ بھی اسی دن سے شروع ہوا 1948-58-60-62-69 اور پھر 1977 تک پاکستانی ریاست نے فوجی آپریشن کر کے ہزاروں بلوچوں کو شہید لاپتہ کر دیا موجودہ صورت حال 2000 سے تاحال جاری ہے بلوچستان کے طول و عرض میں بمباری اور آپریشن سے اب تک ہزاروں بلوچ شہید کر دئے گئے ہیں تقریباً ڈھائی لاکھ کے قریب مختلف علاقوں سے وحشتناک بمباری کی وجہ سے بلوچ اپنے گھر بار کھیت کھلیاں چوڑنے پر مجبور کر دئے گئے جو اب تک سندھ اور دیگر علاقوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ اس عرصے کے دوران 52600 ہزار بلوچ جس میں ڈاکٹر سیاسی ورکر وکیل اساتذہ طالب علم مزدور کسان بزرگ بچے اور زرینہ مری سمیت 350 خواتین پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں لاپتہ کر دئے گئے ہیں ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ ریاست پاکستان اور اُس کی ایجنسیوں کا بلوچ قوم سے نفرت کا اس سے بڑا ثبوت کوئی نہیں ملتا پاکستانی حکمران اور پاکستانی ریاستی ادارے اور ایجنسیاں 72 سالوں سے بلوچ قوم کی شعوری توہین کر رہے ہیں اور بلوچ قوم کی نسل کشی بھی مسلسل جاری ہے اُنہوں نے کہا کہ وی بی ایم پی نے پاکستانی سپریم کورٹ سے لیکر ہر فورم پر آواز اُٹھائی مگر کہیں سے بھی انصاف کی شنوائی نہیں ہوئی اس عظیم انسانی المیے پر پاکستان کی نام نہاد آزاد میڈیا پاکستانی نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستانی سول سوسائٹی جہموری ادارے برابر کے شریک ہیں ۔