شال:(ہمگام نیوز) ماما قدیر بلوچ نے ریاستی اختیار داروں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان سے ہر طقبہ ہائے فکر کے لوگوں یہاں تک کہ معصوم بچوں اور خواتین کو بھی جبری لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ گومازی ، تمپ ضلع کیچ سے دو معصوم بچوں شاہ نواز حبیب اور یوسف قاسم کو ایف سی اہلکاروں نے اس وقت تحویل میں لے کر جبری لاپتہ کیا جب وہ گاؤں کے باہر بکریاں چرانے والے اپنے عزیزوں کو کھانا پہنچانے جا رہے تھے۔
انھوں نے کہا معصوم بچوں کی جبری گمشدگی اور نوجوانوں کو جبری گمشدگی کے بعد جھوٹے مقدمات میں قید کرنا بلوچستان کے مستقبل کو تباہی کی طرف دھکیلنا ہے۔ اس عمل کو صرف نسل کشی کہہ کر ہی بیان کیا جاسکتا ہے علاوہ ازیں اسے بیان کرنے کے لیے کوئی دوسرا لفظ حقائق کے مطابق نہیں ہوگا۔
یہ باتیں انھوں نے آج ( جمعہ ) کے روز وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ میں کیں ۔ احتجاجی کیمپ کو 5702 دن مکمل ہو گئے ہیں۔ احتجاجی کیمپ میں بلوچ وومن فورم شال زون کے ڈپٹی آرگنائزر سلطانہ بلوچ، ثاقبہ بلوچ و دیگر نے آکر جبری لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا۔
ماما قدیر نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے انھیں بلوچستان کی موجودہ صورتحال سے باخبر کیا ، انھوں نے کہا لوگوں کو جبری گمشدگی کے بعد انھیں سرمچار ظاہر کے جعلی مقابلوں میں قتل کیا جا رہا ہے۔ اس طرح کے مظالم کے بعد ریاست سے خیر کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی۔معصوم بچوں کو ریاست مخالف قرار دیا جاتا ہے ، انھیں مسلح گروہوں کا حصہ بتایا جاتا ہے۔ اس مجرمانہ عمل میں بلوچستان کی حکومت بھی شامل ہے۔
انھوں نے کہا ڈیرہ بگٹی ، کوھلو اور بولان کے علاقے مسلسل فوجی کارروائیوں کی زد میں ہے، گھر جلائے جاتے ہیں اور لوگوں کو ماورائے قانون گرفتاری کے بعد غائب کیا جاتا ہے۔ یہ کہنا مبالغہ آراہی نہیں ہوگی کہ مکران ریاستی جبر سے لہولہان ہوچکا ہے۔