کوئٹہ ( ہمگام نیوز ) لاپتہ بلوچ اسیران ، شہداءکے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 2108دن ہوگے۔ اطہار یکجہتی کرنے والوں کو نیشنل پارٹی کے میر سیم خان بلوچ میر عبدالغفار قمبرانی میر عبدالنبی ریکی نے لاپتہ افراد ، شہداءکے لواحقین سے اظہار ہمدردی کی اور بھرپور تعاون کا یقین دلایا ۔ میر سیم خان بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ کہ دنیا کے اندر ہمیں مظلوم اور ظالم کی کئی داستانیں ملتی ہیں۔ وہ دستانیں دیتنام کی جنگ کی شکل میں ہو یا کیو با کی فلسطین میں بے گناہ فلسطینیوں کی جنگ داستین آج بھی چمکتی آرہی ہیں۔ یہ سارے آج جنگی و اپنی حق کی جہد کے مثال بن چکے ہیں اور آج بھی جنگی و انقلابی داستانیں چل رہی ہیں جو کہ آنے والی نسل کی جد وجہد دنیا کے لئے ایک مثال ہونگے دراصل انقلاب جنگی داستانیں اس معاشرے کے اندر جنم لیتی ہیں۔ جہاں ظلم کی بازار گرم ہو وہاں مظلوم کی لاشیں پڑی ہوں وہاں بوڑھے نوجوان کی لاشوں کو کندھے دے رہے ہوں وہاں مال اپنے بچوں کی لاشوں کو گھو د میں لے کر تڑپ رہے ہوں وہاں ایک ظم اور نا انصافی کی مثال قائم ہو آخر وہاں کے نوجوان کو صرف ایک ہی راستے دیکھ سکتے ہیں وہ ہے تشددکے خلاف تشدد ظلم کے خلاف تو پھراس معاشرے میںایک جنگی داستان شروع ہوگی ۔ وائس فار مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماماقدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 12جون کو پیدا رک پسنی میں جاوید بلوچ کی لاشیں فورسز کے ہاتھوں ملی خضدار سے دو لاشیں ملی اسپنلجنی قابو ،جوہان، آپریشن تاحال جاری ہے ۔ قابو اسپلنجی کے گردنواح میں فورسز اور ڈیتھ اسکواڈ کے مقامی آبادیوں کو خوف زدہ کرنے اور نقل مکانی کرنے کیلئے مجبور کرنے کے سلسلے جاری ہیں دیرہ بگٹی سوئی کے علاقے میں فورسز نے آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا جس سے کئی بے گناہ بگٹی بلوچ شہید اور کئی زخمی ہوئے ان کا اکثر تعلق ایک ہی خاندان سے تھا فورسز نے حسب معمول بلوچ گھروں میںلوٹ مار کی اور فورسز کے حملوں سے بڑی تعداد میں بچے اور خواتین کی زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں م، ماما نے مزید کہا کہ بلوچستان میں لوگوںکو اٹھانے ، لاپتہ کرنے اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمد گی جن کی پہنچان تک نہیں ہوتی کاسلسلہ ایک عظیم المیہ ہے جو 1948سے مختلف حکمت عملیوں سے جاری ہے۔ چھوٹے پیمانے یا ایک دور روز والے آپریشن ہر روز بلوچستان کے طول و عرض میں جاری ہیں۔ جو بعد شدت اختیار کر جاتے ہیں