کوئٹہ ( ہمگام نیوز ) لاپتہ بلوچ اسیران شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 2266دن ہوگئے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں میں خضدار سے وحید بلوچ اور لاپتہ کبیر بلوچ کی والدہ نے لاپتہ بلوچ ، شہداء کے لوٓحقین سے اطہار ہمددری کی اور انہوں نے گفتگو کرتی ہوئی کہیہ کہ میرا یک بیٹے کو شہید کردیا گیا اور دوسرا بیٹا کبیر بلوچ 27اکتوبر 2009سے ابھی تک لاپتہ ہے جو خفیہ اداروں کی عقوبت خانوں میں بند ہے آج مجھ جیسی ہزاروں مائیں جن کے شوہر اور بیٹھے شہید و اذیت خانوں میں تشدد سہسہ رہی ہیں ما ں سے اعلیٰ کوئی رشتہ نہیں پیاروں کی شہادتیں اور جدائیاں بے انتہا تکلیف دہ ہوتی ہے کہتے کہ انسان غم اور اپنے پیاروں کی جدائی کے بعد کئی مواقع پر زندگی سے ناطے ختم کر لیتی ہے اور کچھ جدائیاں تو انسان کے وجود کو ہی سوالیہ نشان بنادیتی ہے وحید کی شہادت کبیر کی گمشدگی نے عیب و حوصلہ دی جیسے جیسے کی خواہش پیدا ہوگئی کہتے ہیں کہ جب پیارے اانسان سے جدا ہوتے ہیں تو کہی بارانسان اس غم کو سہہ نہیں پھاتا تو پاگل ہوجاتاہے یا مر جاتی ہے وائس فار مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین مقمام قدیر بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کیونکہ ہر درباری دانشور اپنے اپنے حاکم کا تابع ہوتا ہے مظلوم کی دجد جہد کو غلط و جاہلانہ اور کبھی کبھار مذہب کانام بھی استعمال کرتا ہے جیسا کہ آج یہ سب کچھ بالا دست حاکم کا دانشور بلوچ کے ساتھ کر رہا ہے ۔ جس میں سب دانشور لکھا ری شریک ہیں یہ دانشور انسانی حقوق کے علم بردار کے دعویٰ دار ہیں جب ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملہ ہوتاہے تو دانشور پر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں اس غیر انسانی عمل کی مذمت کرتے ہیں جو قابل تحسین ہے ماما قدیر بلوچ نے مزید کہاکہ یہ سلسلہ پورے ماہ بلوچستان کے مختلف کونوں میں جاری رہی پنجگور کے علاقے میں فورسز نے گھروں پر زمین و فضائی حملہ کیا خواتین و بچوں کو بلوچ ہونے کی سزا میں سخت بے عزت کرنے ساتھ کئی گھروں کو جلایا اور کئی بلوچ فرزندوں کو اغواء کیا گیا ستمبر مہینے میں بلوچ فرزندوں کی لاشیں ملنے کے واقعات میں قدر لے اضافہ ہوا جس میں کچھ لایں ایسی تھیں جنہیں اگست یا سی ماہ فورسز نے اغواء کیا اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھنکیں جبکہ نا قابل شناخت اور انتہائی خستہ حال میں تھیں ماما نے کہاکہ ان دلخراش واقعات پر پورے دنیا کی دانشور وں کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلتی