جمعه, فبروري 21, 2025
Homeخبریںلسبیلہ یونیورسٹی میں کتابوں پر قدغن لگانا انتظامیہ کی تعلیم دشمن پالیسیوں...

لسبیلہ یونیورسٹی میں کتابوں پر قدغن لگانا انتظامیہ کی تعلیم دشمن پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ بی ایس ایف

اُوتھل (ہمگام نیوز) بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنی جاری کردہ مزمتی بیان میں کہا کہ آج لسبیلہ یونیورسٹی کے نااہل انتظامیہ کی جانب سے طاقت کے بل بوتے پر بک اسٹال پر قدغن لگانا بلوچ طلباء کو تعلیم سے دور رکھنے کی پالیسیوں کا تسلسل ہے، جسکی شدید الفاظ میں نہ صرف مزمت کرتے ہیں بلکہ اس تعلیم دشمنی کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نومنتخب وائس چانسلر مالک ترین کی تعیناتی کے بعد لسبیلہ یونیورسٹی کو ایک فوجی چھاؤنی میں تبْدیل کر دیا گیا ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر مختلف ہتھکنڈوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بلوچ طلباء کو ہراساں کیا جا رہا ہے جسکی وجہ سے طلباء زہنی کوفت میں مبتلا ہوکر انکے تعلیمی عمل پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں جو کسی طرح قابل قبول نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہر سال کی طرح آج کے دن لسبیلہ یونیورسٹی میں منعقد کردہ فوڈ گالہ میں طلباء کی جانب بک اسٹالز کا انعقاد کیا جا رہا تھا لیکن وائس چانسلر مالک ترین نے علم وشعور سے خوف زدہ ہوکر اپنی تعلیم دشمن پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے پولیس کی بھاری نفری کو تعینات کرکے بک اسٹالز پر دھاوا بول کر بلوچ طلباء کو زد و کوب کیا گیا لیکن اس تعلیم دشمن عمل کے خلاف بلوچ طلباء نے مزاحمت کرکے کتب اسٹالز کو برقرار رکھا۔

مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں جہاں بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں کتابوں پر پابندی لگائی گئی ہے بلکہ یہ پالیسی 2012 اور 2013 کے بعد سے اب تک مسلسل جاری ہے۔ جس وقت بلوچستان کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک تھے تب سے بلوچستان میں کتابوں پر چھاپوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جبکہ بلوچی کتابوں کے چھاپنے پر پابندی عائد کرکے کئی دکانوں کو سیل کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح پچھلے سال تربت یونیورسٹی میں کتابوں پر قدغنیں لگائی تھیں۔

بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ یہ ریاست کی بھول ہے کہ کتابوں پر پابندی عائد کرنے سے بلوچ نوجوان کتابوں سے دور ہونگے بلکہ بلوچ نوجوان مزید جوش و جزبے کے ساتھ کتابوں سے لگاؤ رکھ کر اپنی علم و شعور کی آبْیاری کیلئے ہر ممکن کوشش کو جاری وساری رکھیں گے جو کہ تعلیم حاصل کرنا انکا آئینی اور قانونی حق ہے۔ اگر یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنے اوچھے ہتکھنڈوں کو استعمال کرکے یونیورسٹی کے احاطے میں بلوچ طلباء کو آئندہ تعلیم و تدریسی عمل سے روکنے کی کوشش کی تو اس گھناؤنی عمل کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھا کر نہ صرف روڈوں اور چوراہوں پر کتابیں رکھیں گے بلکہ علم و شعور کے اس عمل کو بلوچستان کے کریہ کریہ، گاؤں اور دیہاتوں تک پہنچائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز