مسجد سے امام کی آواز گونجی اے روزہ دارو! اے اللہ کے پیارے مسلمانو! سحری کا وقت ختم ہونے میں دس منٹ باقی رہ گیا ہے. یہی سننا باقی رہ گیا تھا کہ میری چیخ نکل گئی. ابھی تو میں کھانا بھی ٹیک سے نہیں کھایا ہے، امی آپ نے مجھے جگایا کیوں نہیں، آپ کی وجہ سے میری سحری چھوٹ جائے گی. آپ کو معلوم ہے نا کہ میں نے ہانی، بانڑی اور مھلب سے شرط لگا رکھی ہے کہ اس بار سارے روزہ رکھونگا.
امی میری پاس ہی بیٹی تھی اور میں مسلسل بولے جا رہی تھی. مجھے بہت غصہ آ رہا تھا کہ آج اکیسواں روزہ ہے اتنے سارے دنوں میں روزہ رکھنے کے باوجود اب امی کے وجہ سے میری روزہ چھوٹ نے والی تھی. امی میرے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے میرے سر پے ہاتھ رکھ کر کہنے لگی "سمی بیٹی آپ ابھی بچی ہو اور اتنی کمزور بھی ہو، روزہ رکھ کر اور بیمار ہو جاؤنگی.
میں سمجھتی تھی کہ امی بس اپنی بات کو جواز فراہم کرنے کے لئے دلاسے دے رہا ہے. سامنے بیٹھے میری بڑی بہن سائرہ مجھے چھیڑنے کے لیے ہنس رہی تھی.
"تم چپ رہو ، خود تو روزہ رکھتی ہی نہیں اور مجھ پر ہنس رہی ہو. میں غصے سے آپے باہر زور سے چلائی. امی مجھے خاموش کراتے ہوئے بولی. اسد کو جگاؤنگی. اب خاموش رہو. یہ کہتی ہوئی وہ باہر چلی گئی اور مجھے اب باتوں سے زیادہ کھانے پر زور دینا تھا کہ ٹائم کم بچ گیا تھا.
میں نے جیسے ہی کھانا ختم کیا تو پانی کا گلاس منہ سے لگا کر جلدی سے پانی پینے لگی. میں اس کمرے کے بلکل دروازے کی طرف منہ کرکے بیٹھی تھی جو سامنے میرا چھوٹا بھائی اسد جو دس سال کا ہے سو رہا تھا. اور دوسرے طرف میرا 2 سال کا بھتیجا جیئند سو رہا تھا. جو میرے بڑے بھائی نثار کا بیٹا ہے. میں جلدی جلدی سے کپ میں چائے بھر کر گرماگرم خلق سے اتار کر باہر آسمان کو دیکھ رہی تھی کہ جب تک تارے نظر آرہے ہیں میرے پاس ٹائم بچا ہے. مگر تارے تو روز دکھتی ہوں پھر بھی صوفی سراج کے اذان کی آواز آجاتی ہیں. میں گرم چائے کے چھوٹے چھوٹے چسکیاں لیتی ہوئی باہر دیکھ رہی تھی کہ امی دوڑتی ہوئی دروازے کے سامنے سے گھر کے دائین طرف کمرے کی جانب دوڑتی چلی گئی. امی کو ایسے دوڑتے ہوئے دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ کچھ بھول گئی ہے اور اوپر سے اذان کا ٹائم تب قریب آتا رہا ہیں. مگر کچھ ہی لمحہ تھا کہ پھر سے دائیں طرف کے کمرے سے نکل کر بیٹھک کی جانب دوڑی جا رہی تھی. مگر اس مرتبہ اسکی باتھ میں بندوق تھی جو کہ پہلے کبھی ہمارے گھر میں نہیں ہوا کرتا تھا. میں کپ رکھ کر کھڑی ہی ہو رہی تھی کہ میری بڑی بہن دوڑی ہوئی دروازے کو پہنچ گئی وہاں سے بھابی بھی اسی کمرہ کو پہنچی، میں جیسے ہی انکے قریب پہنچی بھابی بڑی بہن سے کہہ رہی تھی کہ فوج نے گاؤں کو گھیرے میں لے لیا ہے. نثار کا دوست علی نے یہ خبر لایا ہے.
مجھے اب تک فوج کے یہاں آنے سے کوئی ڈر نہیں تھا. یہ روز کا معمول تھا ہمارے گھروں پے چھاپے مارنا اور تلاشی لینا، بھیڑ بکریوں کو اٹھا کے لیجانا یہ انکے ظلم کی ایک داستان تھی. جو میں 11 سال سے دیکھ دیکھ کر 15 سال تک پہنچ چکی تھی.
میں نے بھابی سے پوچھا کہ امی کہاں گئی؟ اس کے ہاتھ میں بندوق کس کا تھا؟ وہ میری باتوں کو ٹالتے ہوئے مجھے خاموش کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اتنے میں امی اور ابو بیٹھک سے نکل آئے اور بھابی مجھے ہاتھ کے اشارے سے کمرے کے اندر جانے کو کہتی ہوئی خود بھی کمرے میں داخل ہوگئی. امی کے آتے ہی ابو نے دروازہ باہر سے بند کر تے ہوئے کہا میں مسجد کی طرف جاتا ہوں.
امی کیا ہوا ہے. آپ کہاں گئی تھی، یہ بندوق کس کا ہے ؟ میں مسلسل سوال کر رہی تھی مگر امی کو کوئی جواب نہ سوجھی. اس نے جلدی سے نمازی اٹھا کر قبلہ رخ کرکے نماز پڑھنے لگا.
مجھ پر خوف کی کیفیت طاری ہوگئی اور پتہ ہی نہ چل رہا تھا کہ ماجرہ کیا ہے؟ آخر ہوا کیا ہے؟ میں مسلسل پوچھی جا رہی تھی تب ہی میری بڑی بہن مجھے خاموش ہونے کا اشارہ کرتی ہوئی دھیمی آواز میں بولی نثار اور علی آئے تھے علی اپنے گھر گیا تھا نثار تراویح کے بعد گھر آیا تھا. اس لئے امی نے تمھیں نہیں جگایا کہ تم سب کو یہ بات بتاؤ گی اب چوپ رہو.
نثار میرا بڑا بھائی تھا. جسے اسکے شادی کے بعد میں نے کبھی دیکھا نہیں تھا. میری سہیلی کہتی تھیں کہ وہ جنگ آزادی کیلئے سر پیکار بی ایل اے کیلئے کام کرتے تھے اور جب اسکے ساتھی پکڑے گئے تو وہ پہاڑوں میں چلا گیا. پچھلے تین برسوں میں اسے صرف میں ایک بار دیکھ پائی تھی جب وہ پہاڑوں میں جانے کے بعد پہلی بار گھر آیا تھا. تب میں نے اس سے خوب ڈھیر ساری باتیں کی تھی. اس نے اپنے جنگوں کا تذکری بھی کیا تھا کہ کس طرح اس نے اور اسکے ساتھیوں نے دشمن فوج پر حملہ کرکے اسکے لوگوں کو مارا تھا.
اسکے بعد جب کبھی مجھ سے کوئی لڑتا جگڑتا میں اس سے کہتی میری بھائی سرمچار ہے. وہ فوجیوں کو مارتا ہے. تمہیں بھی نہیں چھوڑے گا. اگر آیا تو میں اس کو سب کچھ بتاؤنگی. بس اس دن سے امی نے بھائی کے متعلق مجھ سے ہر بات چپا رکھاتھا.
مگر اب میں بڑی ہوگئی ہوں. اب میں کسی سے نہیں بتاؤنگی کہ میرا بھائی کہا گیا ہیں.اب میں جانتی ہوں کہ میرا بھائی ایک مقصد، ایک فکر سے جڑا ہوا ہے. جس کے ساتھ اور بھی کئی بلوچ فرزند جڑ کر کچھ گلزمین کی آزادی کے خواب دل میں لئے امر ہوگئے اور بہت سے جان نثارانِ وطن میدانِ عمل اپنے قوم و وطن کی آجوئی کے خاطر مسلسل جنگ لڑ رہے ہیں. مجھے معلوم تھا کہ یہ ہماری آزادی کی جنگ ہے اب مجھے سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود پھر بھی بھائی کے آنے پر امی نے سب کچھ مجھ سے چھپا رکھا تھا.
میں یہ خیال دل میں لیے سوچ رہی تھی کہ باہر اچانک گولیوں کی آواز گونجنے لگی. ایک ساتھ چاروں طرف سے مسلسل گولیاں چلنے لگیں. بھابی اور بہن کے آنکھوں میں آنسو جاری تھیں وہ شال کو سر سے ہٹا کر ہاتھوں میں تھامے خدا کی جانب دل ہی دل میں رو رو کر دعائیں مانگ رہی تھیں. مجھے بھی خدا کے سوا اب کوئی ہی یاد نہیں آ رہا تھاہم سب دعائیں مانگ رہے تھے اور آواز کو خلق میں دبا کر گڑ گڑا رہے تھے کہ کہیں چھوٹا بھائی اور بھتیجا نہ جاگ جائیں اور من ہی من رو رہی تھیں.
ہم دعاؤں میں مشغول تھے کہ گھر کا گیٹ دھڑام سے کھل گیا جیسے تین چار لوگوں نے ایک ساتھ اسے لات مار دی ہو اور بوٹوں کی سر سراہٹ کمرے کی جانب بڑھنے لگیں. ہم سب سہم سی گئیں. بس اتنی انتظار تھی کہ کب دروازے کو لات مار کر وردی والے اندر داخل ہوجائینگے.
باہر سے آواز آئی دروازہ کھولو، کون ہے اندر؟ بھابی اندر سے بے ساختہ بول پڑی عورت اور بچے ہیں. بس اتنا ہی دیر تھا کہ ایک لات سے دو چوکاٹوں والا دروازہ دھڑام سے کھل گیا. بندوقیں ہمارے سر سے ایک اینچ کے دوری پر پہنچ گئیں. گرج دار ناسور آواز سے ہمیں خبردار کیا گیا کہ اپنے جگہ پر بیٹی رہو. کمرے فوجیوں سے بھر گیا. یہاں وہاں نظر گمانے کے بعد لاتوں اور گھونسوں سے ہمیں کمرے سے باہر میدان پر گھسیٹتے ہوئے لائے اور امی کو بھی مسلہ سے اٹھا کر باہر لارہے تھے. امی جلدی سے اسد اور جیئند کو گود میں لئے باہر آئے . اب ہم سب گھر سے باہر دہلیز میں کھڑے تھےکہ ہمارے سامنے بانڑی، حانی، مہلب یہاں تک کہ سارے گاؤں والوں کو گھروں سے نکال رہے تھے. ہم سب جلدی سے مسجد کی جانب والے باغ کے چار دیواری کے ساتھ لگ گئے. گاؤں کے مردوں نے عورتوں کو دیوار کے ساتھ بٹا کر خود سامنے کھڑے ہوگئے. وہ ہمارے گھروں کو خالی کروا رہے تھے.
گولیاں اب بھی مسلسل دونوں جانب چل رہی تھی آج سے پہلے بھی ہمارے گاؤں میں چھاپے پڑا تھا پھر گولیوں کی آواز آج میں پہلی بار سن رہا تھا سب نے یہی گمان کر رکھا تھا کہ بھائی اور اسکا دوست جنگ لڑ رہے ہیںشاید صوفی کے گھر میں 'کیونکہ یہاں صوفی کے گھر والوں کے سوا سب گاؤں والے موجود تھے'. مگر فوجی ہکا بکا ہر گھر پر گولیاں چلا رہے تھے. کبھی کبھی کوئی گولی ہمارے سروں کے اوپر سے گزرتی رہی. ہمیں بس اتنا معلوم تھا کہ اس وقت مجھے خدا کے سوا کوئی بھی یاد نہیں رہاہم مسلسل رو رو کر دعائیں مانگ رہے تھےکالی رات میں بے ٹھکانہ بھیڑ بکریوں کی طرح کسی کونے جمع ہر آہ و بکا کر رہے تھے اور صرف خدا کو پکار پکار کر دعائیں مانگ رہے تھےمیری سہیلی بانڑی کے گھر سے آگ کے شعلے ایک زور دار دھماکے کے ساتھ اٹھنے لگی ایک کے بعد ایک زور دار دھماکوں سے ہر طرف آگ کے شعلے اٹھ رہے تھےفوجی راکٹ فائر کر رہے تھے اور دوسری جانب بھی انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھااندر سے ایک بلوچ فرزند ان پر مسلسل وار کرتے ہوئے ایک کے بعد ایک کو ڈھیر کر رہا تھااس نے ایسی زبردست پوزیشن لیا تھا کہ فوجیوں کے گولی اس تک نہ پہنچ پائےتب ہی وہ آخر کار تھک ہار کر راکٹ فاہر کر رہے تھے کچھ لمحوں کے بعد اندر سے فائرنگ کی آواز آنے بند ہو گئے.
ہم اور بھی زور زور سے رونے لگیںچیخ چیخ کر خدا کو پکارنے لگے کہ ان زمینی خداؤں سے ہمیں نجات دلاہم سامنے مسجد کے چبوتروں میں خدا کو ڈھونڈ رہے تھے کہ آ ہم پر رحم کر ہماری مدد فرما
مگر ہم بس پکارتے ہی رہےایک کے بعد ایک گھر جل کر راکھ ہو رہا تھا میرے گاؤں کے سر سبز و شاداب باغات اس آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آکر خاکستر ہو رہی تھیں جو کچھ دیر پہلے اس گاؤں کی خوبصورتی کو دو بالا کر رہے تھے. جن کے چھاؤں تلے ہم کھیلتے کھیلتے دن کو رات کرتے تھے اب وہ سب خاکستر ہوئےتھیں گولیوں کی آواز بانڑی کے گھر کے ساتھ خاموش ہو گئیں. مگر اکا دکا اب بھی گولیاں چل رہی تھی.
ہر طرف وردی والوں کو دیکھ سکتےتھیں وہ ہکا بکا یہاں وہاں بھاگ رہے تھے. ان میں سے کچھ زخمی حالت میں کرا رہے تھے اور کچھ چیک چیک کر مر گئے تھے. ان کو اسٹریچر پر لیٹا کر لیجایا جا رہا تھا.
دوسری جانب ان میں سے کچھ گھروں پر تیل چھڑک کر جلا رہے تھے.گاؤں کے لوگ چیخ و پکار سے اللہ سے مدد مانگ رہے تھے ان میں کچھ قرآن پاک سر پے اٹھا کر ان سے رحم کا درخواست کر رہے تھے . مگر کون تھا یہاں؟ ہمارے سوا ہماری آہ و زاری کو سننے والا؟ یہ تو ایسے ٹوٹ پڑے تھے جیسے کوئی بھیڑیا بکری کے بچوں پر جھپٹ پڑےنہ آو دیکھے نہ تاو بس حملہ کرتا جائے. یہاں بھی کچھ بھیڑوں کا وار چلا تھانہ عزت نہ غیرت کو جانتے تھے. لاتوں مکھوں سے بات کرتے تھے. ہم چاروں طرف سے گھروں کے آگ میں گھیرے ہوئے تھے اور وہ مسلسل ایک کے بعد ایک گھر کو تیل چھڑک کر آگ لگا رہے تھے. ہمارے سامنے کچھ دوری پر جیسے ہی فوجی صوفی سراج کے گھر کے قریب پہنچ گئے اندر سے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ ہونے لگی. کچھ وہیں ڈھیر ہو گئے اور کچھ بیچھے بھاگ کر زمین یا قریب کے دیواروں میں چپ گئےاب پھر سے گولیوں کی تھر تھراہٹ شروع ہوگئی اندر موجود کون تھا میرا بھائی یا اسکا "دوست علی پتہ نہیں…. مگر گولیوں کی وار بتا رہی تھی کے فیصلہ ہو چکا ہےاب آخری گولی تک لڑنا ہےموت تو آنی ہی ہےبس ان سے چار آٹھ کو بھی ڈھیر کردیا جائے.
ہم سب زمین پر لیٹ گئے. تب ہی ہم نے اپنے طرف بہت ساری فوجیوں کو دوڑتے ہوئے آتے دیکھامجھے بس یہ گمان ہوا کہ اب سب کچھ جلا کر ہمیں بھی یہی گولیوں سے بوند کر چلے جاہینگےمیری جسم میں ایک کپکپی سی دوڑنے لگی ابھی تو میں مرنا نہیں چاہتی تھی ابھی مجھے سارے روزے رکھنے تھےابھی مجھے اپنی دوستوں کے ساتھ کھیلنا تھا. ابھی تک میں بڑی نہیں ہوئی تھی ابھی میں نے اپنے گاؤں کی خوبصورتی کو نہیں دیکھا تھا ابھی صبح میں چڑیوں کی چڑچڑاہٹ سے دل بھری نہیں تھی ابھی آسمان پر تارے گئے نہیں
مجھے بھابی اکثر کہتی تھی ہم خون دینگے تب ہمیں آزادی ملے گامگر میں اب جینا چاہتی تھی میں اپنے دشمن کو نیست نابود ہوتے دیکھنا چاہتی تھی میں اپنے بھائیوں کے خواب کی تعبیر کو، اس کی خوشی کو دیکھنا چاہتی تھی. میں اٹھ کر بھاگنا چاہتی تھی……. بہت تیز…….. اتنی تیز کے انکے گولی کے رفتار سے بہت دور نکل جاؤںمجھے میری گاؤں سے نہیں جانا تھا
میں انہی سوچوں میں گم تھی کہ تیز رفتار سے بندوقیں ہمارے ساتھ گاؤں کے مردوں پر بندوق تانے اور وہ ان پر حملہ آور ہوکر مارنے پیٹنے لگےمارتے پیٹتے وہ انہیں ہم سے دور گھسیٹتے ہوئے لیجا رہے تھےانہیں کوئی رحم نہ تھی. ہمارے گاؤں کے 80 سالہ بزرگ بابو خیر جان کو بھی لہولہان کر دیا یہ دیکھتے ہی امی ساتھ والے فوجی کے بازو کو زور سے کھینچتی ہوئی کہنے لگی یہاں کیوں منہ مار رہے ہو نہتے لوگوں برس رہے ہووہاں جاکر لڑوبندوق والو سے طاقت آزماؤں
یہ سنتے ہی بندوق بردار فوجی امی کو دھکا دیتے ہوئے کہنے لگے مار دیا انکو۔۔۔۔ مر گئے سب کہ سب…. تم لوگوں کے مرد ……..بیٹے کی موت کی خبر کو کس حد تک ایک ماں بن دیکھے قبول کر سکتی تھی میں نے اپنے ماں سے سنا تھا وہ بھائی سے کہتی تھی "اگر اپنی ماں کی حلال بیٹے ہوں تو میری دودھ کا لاج رکھوں اور وطن کے ننگ پر شہید ہوجاون وہ اب بھی کہہ رہی تھی وہ میرا بیٹا تھا جو اکیلے نہیں گیا اسے مرنا ہی تھا یہ ایسا ہی راستہ تھاوہ فوجیوں سے کہہ رہی تھی. تم جاؤ اپنی لاشیں اٹاؤں امی کے آنکھیں غصہ میں لال ہوگئی تھی اپنی امی کے اس چہرے کو میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھااسکی آنکھوں میں لہو اتری تھی مگر آنسوؤں کو اندر ہی جذب کر رہی تھی.
بھائی اور اسکے ساتھی کے موت کی خبر سن کر ہم سب رونے لگےہمارے ہمدرد، خیر خواہ ، ہمارے اپنے گاؤں والے تھے…… اس وقت بس ہم ہی لوگ ایک دوسرے کے غم سے واقف و شریک تھےہم سے زار و قطار سے رو رہے تھے.
فوجیوں نے یہ دیکھ کر باقی مردوں کو اپنے ساتھ لیکر دور چلے گئےوہ ہمارے آنکھوں کے سامنے انہیں زمین پے گھٹنوں کے بل بٹھا کر ، اس کے ہاتھ بیچے رکھنے کو کہہ رہے تھے. ہم اب خود کو بے سہارا ہی دیکھ رہے تھے….. ہمارے گاؤں کے بزرگ ، نوجوان سب کو انہوں نے گرفتار کر لیا. سامنے مسجد سے کچھ لوگ، میرے ابو ، مسجد کے امام صوفی سراج اور گاؤں کے چند اور لوگوں کو بھی اسی لائن میں گاؤں کے باقی لوگوں کے ساتھ بٹھا دیابانڑی اپنے بھائی کو بارہا آواز دے رہی تھی وہ بہت ڈری ہوئی تھی. ڈر کے ماتے ہم سب سہم گئے تھے. مگر وہ ہمیشہ کہتی تھی کہ میرا بھائی ایسے لڑائیوں سے دور رہتا ہے. اس لیے وہ شادی کرکے اپنے بچوں کے ساتھ شال میں نوکری کر رہا ہے. وہ کہتا ہے کہ یہ سیاست یہ جنگ میں لوگ بس ایسے ہی فضول میں مر رہے ہیں. مگر ہائے قسمت امی بار بار یہ بلوچی محاورہ دہراتے ہوئے کہتی تھی" آس کہ کپیت، ھُشک ءُ تَر نہ چاریت" آج وہی ہو رہا تھاکچھ ہی دن پہلے بانڑی کا بھائی شال سے عید منانے گاؤں آیا تھا اور اب وہ بھی بلوچ ہونے کے حیثیت سے ان پاکستانی دلاروں کی نظر میں دشمن ہی تھاانکو کوئی غرض نہیں تھا کہ کس نے بندوق اٹھایا ہے اور کون یہاں بندوق اٹھانے سے ڈرتا ہےانکے لئے تو بس بلوچ نام ہونا ہی کافی تھا اسکے لہو کو بہانے کے لیے
اور اب وہی ہو رہا تھا جو ہر بلوچ کے ساتھ ہوتا ہےہمارے گھر کے ساتھ بانڑی کا گھر اور گاؤں کے دوسرے گھروں سے ایک ساتھ ہی آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے ہماری بچپن ہمارے خواب ہماری یادیں ہماری ہنسی مٹھی کے کھلونے سب ایک ہی ساتھ آج اس آگ کے شعلوں میں آخری سانسیں بھر کر خاموش ہو رہی تھی. یہاں جو کچھ انکے ہاتھ لگا تھا لوٹ مار کا بازار گرم کیے بھوکوں کے ہاتھوں لٹ رہے تھے.
ہم آگ کے تپش میں اپنے سارے سپنوں کو جلتے دیکھ رہے تھے کہ بھابی یک دم سے روتی ہوئی چیخ کر اٹھ کھڑی ہوکر آگے باگتی جانے لگی کہ ساتھ ہی کھڑے چار فوجیوں میں سے ایک نے بندوق کا بھٹ اتنے زور سے مارا کہ بھابی وہیں پر گر گئی…. امی نے جلدی سے بھابی کو سنبھالتے ہوئے انہیں اپنے طرف کھینچاکچھ لوگ میرے بھائی اور اسکے دوست علی کے ہاتھ پیروں سے پکڑ کر انہیں گاڑیوں کے طرف لارہے تھےجن کے بدن سے بہتا لہو آگ کی روشنی میں صاف دیکھائی دے رہا تھاوہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر لہو سے نہاتے ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے تھےوہ جس مقصد کیلئے گھر سے نکلے تھے اپنی مقصد میں سرخ رو ہوکر آخری گولی تک ڈٹے رہے.
امی نے سر نیچھے کیے بھابی کے آنکھوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر بلکل خاموش بیٹی تھی. میں بھائی کی لاش دیکھ کر اس سے بھاگ کر چپٹنا چاہتی تھی اپنے بھائی کے رخسار کو چومنا چاہتی تھی اسے کہنا چاہتی تھی کے مجھ سے کیوں نہیں ملے؟ اور آپے رہی ہے کہہ رہی تھیں مجھے دیکھنے دو ….. میری یہ آنکھیں تین سالوں سے اپنے بھائی کو دیکھنے کے لیے ترس رہی تھیں. میں چیخ چیخ کر کہنا چاہتی تھی کہ ارے ظالمو اب تو اسے رہنے دو…. اب تو وہ ایک لاش ہے ہمارے وارث ہمیں اس کا دیدار کرنے دوں
مگر میں اپنے جگہ سے ہل بھی نہ سکی میری جسم میرا ساتھ نہیں دے رہا تھا میری زبان خاموش گھونگی ہوگئی تھی میں بس دیکھی جا رہی تھی چیخ بھی نہ سکی میری بڑی بہن اپنی بال نوچ رہی تھی اپنے پیروں کو پیٹ رہی تھی وہ زور زور سے رو رہی تھی بانڑی آئی بلی جیئند اسد سب ہی آہ و زار رو رہی تھیں بس امی اور میں خاموش تھیں اور بھابی بے حوش پڑی تھی…
ابھی سورج نکلنے کو ہی تھی رات کی کالی سرخی اتر رہی تھی مگر آج نہ وہ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور نہ چڑیوں کی چہچہاہٹ کانوں میں گونج رہی تھی
فوجیوں نے گاؤں سے چار لاشیں لاکر گاڑی میں رکھ دیئے اور گاؤں کے مردوں اور عورتوں کو گھسیٹتے ہوئے گاڑیوں میں سوار کرنے لگےسادہ کپڑوں میں ملبوس ایک شخص میرے ابو کے ساتھ صوفی سراج، بانڑی کے بھائی اور صوفی کے بھائی کو روک کر باقی سب کو گاڑی میں بٹھا رہے تھے. گاڑیاں نکل گئیایک "'آخری گاڑی کے فوجی نے سامنے بیٹے بانڑی کے بھائی پر بندوق تانتے ہوئے ہی فاہر کھول دی "ایک کے بعد ایک چار لاشیں ہمارے آنکھوں کے سامنے پڑی تھی اور گاڑیاں سامنے سورج کی طرف سے اٹھتی دھول میں چلتی رہیں.
ہمارے گاؤں میں سورج کے کرنوں سے پہلے ہی لہو میں ڈوبی آگ کی روشنی پھیل گئی تھی.