شنبه, جنوري 25, 2025
Homeخبریںمتحدہ بلوچستان کے مطالبے سے گریز پا ،گروہی سیاست کا ناسور۔ ہمگام...

متحدہ بلوچستان کے مطالبے سے گریز پا ،گروہی سیاست کا ناسور۔ ہمگام ٹیم

جب سے بلوچستان کے سرزمین کو انگریز سامراج نے مختلف انتظامی حیلے بہانوں سے تقسیم کیا ہے تب سے بلوچ کسی نہ کسی طرح سے اس غیر فطری اور بلوچ قومی منشا کے برعکس ہونے والی سرحدی تقسیم و بندربانٹ کے خلاف مزاحم ہے۔ انیس سو انتیس میں برطانوی بادشاہت نے گولڈاسمتھ لائن کھینچ کر بلوچ سرزمین کو دو واضح حصوں میں تقسیم کردیا، بلوچ چونکہ اس وقت انتظامی و سیاسی حوالے سے کمزور تھے اس لیے انگریز سامراج کے خلاف ایک مکمل اور بھر پور مزاحمت نہ کرسکے لیکن جتنی علاقائی تحریکیں خاص کر برٹش انڈیا میں انگریز سامراج کے خلاف ابھریں ان میں بلوچ کی مزاحمت و شمولیت کے واضح نشان و اثرات پائے جاتے ہیں۔

ایرانی قبضہ گیر ریاست نے اپنے اتحادی انگریز سامراج کے ساتھ ملکر بلوچ قوم کی طرف سے ہر ابھرتی مزاحمتی تحریک کو نہ صرف طاقت کے بل بوتے پہ روندا بلکہ دنیا کہ سامنے بلوچوں کو جاہل، گنوار، بدتہذیب، قزاق اور منشیات فروش سمیت امن عامہ کے لیے خطرناک گروہ کا ٹیگ لگا دیا اور دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی کہ اس قوم کی اگر سرکوبی نہ کی گئی تو یہ چیز ہم سب کی مفادات کے لیے نیک شگون نہیں ہوگی، سو عالمی سامراجیت کے اس وقت کے بابائے اعظم برطانوی استعمار نے کھل کر ایرانی قبضے کو مضبوط و مربوط بنانے کی کوششوں میں بلوچ قوم کے خلاف ایران کا ساتھ دیا۔

بلوچ قومی طاقت کو مزید تقسیم کرنے کی ایک اور کوشش برطانوی سامراج کی یہاں سے جانے کے دوران کی گئی جس میں متحدہ ہندوستان اور پشتون علاقوں پر مشتمل ایک غیر فطری ملک پاکستان کے نام پر بنائی گئی اور برٹش بلوچستان کی آزادی کو ظاہری طور پر تو تسلیم کیا گیا لیکن اندرون خانہ اپنی مفادات کو محفوظ بنانے اور پاکستانی ریاست کو بحربلوچ سے استفادہ کرنے کے لیے بلوچستان پر قبضہ کرنے میں بھرپور امداد کمک پہنچائی گئی۔

متحدہ بلوچستان کے مطالبے کی اہمیت:

بلوچ قوم کی افردی قوت ایران پاکستان اور افغانستان سمیت دنیا بھر کے ممالک میں پھیلی ہوئی بلوچ آبادی پر مشتمل ہے جن میں لاکھوں ایسے بلوچ ہیں جو کہ برسہا برس بلوچ سرزمین پر قدم نہ رکھنے کے باوجود کسی نہ کسی طرح سے خود کو بلوچ وطن، بلوچی زبان اور بلوچ متحدہ قومی مفادات سے جوڑتے ہیں۔

بلوچستان کی تحریک آزادی اپنے اپنی شروعات سے لیکر آج تک مختلف نشیب و فراز طے کرتی آج کی شکل میں موجود ہے ہزارہا کمی کوتاہی اور وسائل سے تہی دست و ساماں ہونے کے باوجود آج کی بلوچ تحریک آجوئی اپنی ماضی کی تجربات و کوتاہیوں سے سیکھتے ہوئے بہترین اور ماضی کی سب تحریکوں سے حجم و بیانیے کے اعتبار سے کامیاب ترین ہے۔

ماضی کے سیاسی و عسکری مزاحمت کے سرخیل و رہنماؤں سے لے کر آج تک کے حالیہ تحریکی تسلسل کے رہنماؤں تک سب نے ہمیشہ بلا کسی لگی لپٹی اور چون و چرا کے متحدہ بلوچستان کے تصور کو بلوچ عوام کے دلوں کے میں زندہ رکھا ۔گوکہ پاکستان کے زیرتسلط بلوچستان کے اندر مزاحمتی و سیاسی عمل بہ نسبت ایرانی زیر تسلط بلوچستان کے ہمیشہ مضبوط و منظم تر رہا ہے لیکن اسی شئے کو سمجھتے ہوئے تمام بلوچ آزادی پسند لیڈران چاہے وہ ماضی کے بلوچ جد و جہد کی تحریکوں سے وابستہ ہوں یا پھر حالیہ تحریکی رہنما اور لیڈران ہوں سب نے متحدہ بلوچستان کی واگزاری کی بات کی ہے، جو لوگ آج ایران کو اپنا اتحادی اور بدقسمتی سے بلوچ کا دوست سمجھتے ہیں خود انہی کے بیانات اور انٹرویوز اس بات کی شواہد فراہم کرتے ہیں کہ انہوں نے ایران کو بلوچ قوم پر نہ صرف قابض کہہ کر پکارا بلکہ ایران کو بلوچ قومی نسل کشی کا ویسا زہ دار کہا اور مانا جیسا کہ وہ پاکستان کے بارے میں اب بھی کہتے ہیں۔

متحدہ بلوچستان کا مطالبہ کیوں لازمی ہے:

اگر بلوچ قومی سماجی و ثقافتی ساخت کو مدنظر رکھا جائے تو ایک چھوٹی مگر اہم بات سمجھ میں آجاتی ہے، ماضی سے حال تک بلوچ سماج کے اندر ہر خاندان ہر ٹک اور قبائل کی اپنی اپنی بھیٹکیں اور مجالس لگتے تھے جو ہنوز جاری ہیں، رات دیر تک مختلف سماجی و سیاسی خاندانی مسائل پر باتیں ہوتی تھیں، ان مجالس میں خاندان کے نوجوانوں کا کردار نہایت اہمیت کا حامل رہتا تھا، کیونکہ بلوچ اپنی سماجی و ثقافتی پس منظر کے تحت قبائلی سماجی بندوبست میں پیوست ہے جہاں ہرکنبے خاندان ٹک اور زئی کے باہمی و آپسی معاملات ہوتے تھے جس میں اتحاد سے لیکر دوستیوں رشتہ داریوں اور مخاصمت تک کے مسائل و مشاکل پر باتیں ہوتی تھیں، چونکہ بیشتر بلوچ کا معاشی پس منظر گلہ بانی و مالداری و زمینداری تھی تو اکثر و بیشتر چراگاہوں سمیت زمینوں کے بندربانٹ اور حدبندیوں کے مسائل سامنے آتے تھے۔

ان تمام مجالسوں اور بیٹھکوں کا ایک اہم ترین مقصد یہی ہوتا ہے کہ خاندان کے بزرگ اپنے تمام جائیداد اور ان پر جاری قضیوں سمیت انکی حدبندیوں اور حق ملکیت کی احساس کو اپنی نئی نسل میں منتقل کریں، تاکہ ان نوجوانوں کو اچھی طرح سے واقفیت ہو کہ ہماری زمینوں کی حدود کہاں شروع اور کہاں ختم ہوجاتی ہیں، کس سے ہمارا بیر ہے اور کس سے ہمارے دوستانہ تعلقات ہیں، بلوچ سماج کے اندر یہ ایک طریقہ کار ہوتا تھا اپنی تمام تر حق ملکیت کے دعوے کو احساس سمیت اپنی نئی نسل میں منتقل کرنے کا۔ اب آتے ہیں کچھ گروہوں کی اس غیرمنطقی بیانیے پر کہ ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے بلوچ خود کچھ نہیں کہتے تو ہم کیوں انکی ترجمانی کریں۔ہم بیک وقت دو دشمنوں سے ایک ساتھ معرکہ نہیں لڑ سکتے لہذا ایرانی زیر تسلط بلوچستان کی بات کو ہمیں بھول جانا چاہیئے اور پاکستانی بلوچستان پر توجہ مرکوز کرنا چاہیئے۔ایرانی و پاکستانی زیر تسلط بلوچستان کے زمینی حقائق اور وہاں موجود سماجی و سیاسی تضادات کی نوعیت الگ الگ ہیں لہذا پاکستانی زیر قبضہ بلوچستان کے بلوچوں کو ایرانی مقبوضہ بلوچستان کی بابت بات کرنے سے گریز کرنا چاہئیے۔

بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے خود دوہزار سے شروع ہونے والی اس حالیہ تحریکی تسلسل کو دیکھا جائے تو نواب خیربخش مری سے لے کر شہید غلام محمد اور ابھی ایرانی تسلط پر خاموشی کی پرچار کرنے والوں کی اپنی بیانیئے کو دیکھا جائے تو کہانی بالکل اسکے برعکس ہے، دوہزار چودہ سے پہلے بلوچستان کے مزاحتمی و سیاسی صفوں کے اندر کوئی ایسی تاثر نہیں پائی جاتی تھی کہ بلوچستان پر ایرانی قبضے کے خلاف بات کرنے سے بلوچ قوم کو اور قومی تحریک کو بحیثیت مجموعی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ اور بلوچ قوم کے اندر موجود سماجی و سیاسی تضادات و حقائق کو اگر دیکھا جائے تو یہ محض ایران و پاکستان کے درمیان غیرفطری سرحدی لکیر تک محدود نہیں بلکہ خود پاکستانی زیر تسلط بلوچستان کے اندر لوگوں کی نفسیات، زمینی حقائق، مسائل اور سماجی و سیاسی بنیادوں پر موجود تضادات ایک دوسرے سے الگ ہیں، لیکن ایک نقطے نے پورے بلوچستان کو یکجاہ و متحد کیا ہے وہ نقطہ ہے غلامی کا محکومی کا اور جب بات غلامی و محکومی کی ہو تو پھر ایران و پاکستان دونوں نے بلوچ قوم کو اپنا غلام رکھا ہے۔

جس طرح کہ اوپر کہاگیا دنیا جہاں میں بلوچ جتنے بھی ممالک اور خطوں میں بکھرے ہوئے ہیں وہ خود کوبلوچ سرزمین کا فرزند سمجھتے ہوئے خود کو متحدہ بلوچستان کے ساتھ نتھی کرتے ہیں، لہذا پاکستانی زیر قبضہ بلوچستان میں بلوچ قومی تحریک آزادی کی ایرانی زیر تسلط بلوچستان سے قدرے مضبوط ہونے کی بنیاد پر یہ بلوچ قومی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم کم از کم کسی دوسرے ملک ( ایران) کے زیر تسلط بلوچستان کے بلوچوں کی نسل کشی انکی حالت زار اور محکومیت پر اپنی آواز بلند کریں۔

پاکستانی زیر تسلط بلوچستان کے اندر برسریکار پارٹی انکی اور سربراہان جتنے بھی تھے اور جتنے بھی ابھی تک موجود ہیں انہوں نے اور نہ ہی انکی تنظیموں نے کبھی ایران کے خلاف ہتھیار اٹھائے اور باقاعدہ مزاحمتی و سیاسی تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ البتہ وہ اپنی مادر وطن پر ایرانی قبضے کے خلاف اپنی حق ملکیت اوردعوے کو دہرانے کے لیئے ہی ایک اخلاقی حمایت ان بلوچوں کے حق میں دینے کی جتن کررہے ہیں جو کہ بلوچ ہوتے ہوئے ایرانی جبر و تشدد اور منظم نسل کشی کے شکار ہیں۔

متحدہ بلوچستان کے مطالبے کا اعادہ کرنا اس لیئے لازمی ہے کیونکہ ہوسکتا ہےکہ فی الحال بلوچ اس قدر طاقت و قدرت نہیں رکھتا کہ وہ دونوں قابضوں کے خلاف عسکری و منظم سیاسی محاذ کھول سکے، لیکن اگر بلوچ سیاسی قوت چاہے پاکستانی زیر نگین ہو یا پھر ایرانی قبضے میں ہو اسے اپنے بیانیئے اور حق ملکیت کے دعوے سے کبھی دست بردار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ آج کی جنگیں ہتھیاروں سے نہیں بلکہ معلومات و پروپیگنڈے پر زیادہ لڑی جاتی ہیں جہاں لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کرکے انہیں اپنی بنیادی قومی اساس و شناخت سمیت جداگانہ سماجی و ثقافتی ورثے سے بیگانہ کرکے اپنے اندر ضم کیا جاتا ہے۔ ایران و پاکستان دونوں کی یہی کوشش رہی ہے کہ وہ بلوچ قوم کو انکی اصل اساس سے بیگانہ کرسکیں، لیکن بلوچ تحریک آزادی اور اسکے بیانیئے نے قابضین کی ان تمام مذموم مقاصد پر پانی پھیر دیا ہے جب تک متحدہ بلوچستان کی مطالبے کا اعادہ کیا جاتا رہے گا آج کے اور آنے والے کل کے نوجوانوں کے دل و دماغ میں بلوچ سرزمین، انکی حدود و قیود، زبان و ثقافت سے محبت، اور قابضین کے خلاف جد و جہد کرنے کا جذبہ زندہ و جاوید رہ سکتے ہیں۔

یہ بات یاد رکھنی چاہئے سیاسی عمل ہمیشہ ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی ہے اور اپنی کردارر کو منزل پانے تک جاری رکھتی ہے، متحدہ بلوچستان کے مطالبے کا بیانیہ بلوچ کی نئی نسل کی سیاسی تربیت کا بنیادی حصہ ہے تاکہ اسکے ذہن میں یہ بٹھایا جائے کہ متحدہ بلوچستان کی آزادی کی حصول شاید اتنی جلدی ممکن نہ ہوسکے لیکن تمہیں ہمیشہ یہ یاد رہنا چاہئے کہ تم کون ہو، تمہارے قابض و دشمن کون ہیں اور تمہاری زمین کی حدود قیود کیا ہیں، وگرنہ کراچی ( مائی کلاچی ) کو انہی بلوچ دریاوردوں نے چھ سے سات سو سال پہلے آباد کیا، لیکن اسکے بعد باہر سے آنے والی آبادیوں کی یلغار اور خاص کر انگریز سامراج کی بیوپاری ساتھیوں کی کراچی آمد اور یہاں سکونت اختیار کرنے اور بے پناہ آبادی کو ساتھ لانے کے بعد بلوچ اس شہر میں اب حاشیہ پر آچکے ہیں، اوردوسری جانب کچھ مفاد پرست و گروہی سیاست سے وابستہ لوگ کہتے پھرتے ہیں کہ کراچی اب بلوچ قوم کے ہاتھ سے جاچکی ہے کیونکہ اب وہ تاریخ پرانی ہوچکی ہے لہذا اس بات پر مٹی پاؤ۔

آج اگر ایرانی مقبوضہ بلوچستان کی قبضے کی بیانیئے کو چھوڑ دیا جائے تو کل یہ بات بھی قصہ پارینہ بن جائیگا اور کوئی مفاد پرست اسی طرح آکر کہے گا کہ مٹی پاؤ بات پرانی ہوچکی ہے۔ یہی چیز پاکستانی زیر قبضہ بلوچستان کے ساتھ بھی ہوگا، اور پھر رہےگا نام اللہ کا اور پاکستانی و ایرانی پارلیمنٹ میں باجگزاری کالیکن آج وہ لوگ جو کسی بھی دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتے ہوئے متحدہ بلوچستان کی بات کرتے ہوئے پورے بلوچ قوم کی دکھ درد کو سانجھا سمجھتے ہیں، ایران و پاکستانی جبر و بلوچ قومی نسل کشی پر اپنی آواز بلند کرتے ہیں کل کو بلوچ قوم کے دلوں میں سدا زندہ رہنے والے لوگ یہی ہونگے، وگرنہ پاکستانی و ایرانی باجگزاری و دلالی کرنے والوں کی نہ صرف عاقبت یکساں ہے بلکہ تاریخ کی بے رحمی بھی انکے ساتھ یکساں نوعیت کی ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز