واشنگٹن(ہمگام نیوزڈیسک) اطلاعات کے مطابق متحدہ عرب امارات میں افغان طالبان کی امریکی نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد سے ملاقات کر رہے ہیں۔ تاہم افغان حکومت کا کوئی نمائندہ شامل نہیں جبکہ پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکام اس بات چیت میں شامل ہونگے۔پاکستان نے کہا ہے کہ وہ عالمی برادری کے تعاون سے افغانستان میں مفاہمت اور امن کے قیام کے لیے پرعزم ہے جبکہ افغانستان نے اس ملاقات کو پاکستان کی جانب سے افغان امن عمل کے سلسلے میں پہلا عملی قدم قرار دیا ہے۔یہ زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان کے نمائندوں کے درمیان کم از کم تیسری ملاقات ہے۔ اس سے قبل یہ قطر میں کم از کم دو مرتبہ مل چکے ہیں۔افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں اس ملاقات کے تصدیق کی ہے کہ قطر میں افغان طالبان کے نمائندے اس بات چیت میں شریک ہونگے۔افغان طالبان کا موقف رہا ہے کہ افغان سرزمین پر غیرملکی افواج کی موجودگی ملک میں امن کے قیام کی راہ میں مرکزی رکاوٹ ہے تاہم وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ کابل حکومت کو تسلیم کرنے، آئین میں تبدیلیوں اور خواتین کے حقوق جیسے معاملات پر بات ہو سکتی ہے۔امریکہ نے ستمبر میں زلمے خلیل زاد کو افغانستان میں قیامِ امن کے لیے نمائندۂ خصوصی مقرر کیا تھا اور اس نے طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ برائے راست بات چیت پر رضامند کرنے کے لیے سفارتی کوششیں تیز کر دی ہیں۔افغانستان کی پیس ہائی کونسل کے ترجمان احسن طاہری نے برطانوی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس ملاقات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ملاقات کا ایجنڈا یہ طے کرنا ہے کہ ’امن عمل کا آغاز کیسے ہو اور اس سلسلے میں کیسے آگے بڑھا جائے۔‘پاکستانی دفترِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’عالمی برادری اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ہمراہ پاکستان بھی افغانستان میں امن اور مفاہمت کے لیے پرعزم ہے۔‘انھوں نے امید ظاہر کی کہ اس سلسلے میں متحدہ عرب امارات میں ہونے والی بات چیت سے ’افغانستان میں خونریزی کا خاتمہ ہو گا اور خطے میں امن آئے گا۔‘اتوار کی شب افغانستان کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ متحدہ عرب امارات میں ہونے والی بات چیت پاکستان کی جانب سے افغان امن عمل کے سلسلے میں لیا جانے والا پہلا عملی قدم ہے۔زلمے خلیل زاد نے اس ملاقات سے پہلے متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زید سے بھی ملاقات کی ہے۔
یہ بطور نمائندۂ خصوصی تقرری کے بعد ان کا خطے کے تیسرا دورہ ہے جس میں انھوں نے افغان طالبان کے نمائندوں کے علاوہ افغانستان، روس، پاکستان، ترکمانستان اور آذربائیجان کے حکام سے بھی ملاقات کی اور افغانستان میں قیامِ امن کے بارے میں بات کی ہے۔وزارتِ خارجہ کے ترجمان صبغت احمدی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے پاکستان کا کردار کلیدی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘امریکہ نے بھی اپنا دباؤ بڑھایا ہے جس سے کچھ نتائج سامنے آئے ہیں۔ ہم پرامید ہیں کہ یہ نتائج وسیع پیمانے پر حاصل کیے جا سکیں گے۔’اس سے قبل سنیچر کو پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان نے طالبان سے ہتھیار پھینک کر مذاکرات کے لیے تیار رہنے کو کہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب پاکستان ان مذاکرات میں مدد کر رہا ہے تو افغان حکومت، طالبان اور دیگر گروہوں کو مفاہمت اور مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے۔