Homeآرٹیکلزمقبوضہ بلوچستان میں سماجی انصاف کی حالت زار

مقبوضہ بلوچستان میں سماجی انصاف کی حالت زار

تحریر: رندانی گٹ

ہمگام کالم:

ایک اکیلے جنگ کی غیرموجودگی کو امن نہیں کہتے، سماجی انصاف social justice کی عدم دستیابی ہی وہ بدامنی کی بدترین شکل ہے جس کی بدصورت شکل کو استبدائی ذرائع سے نوآبادیاتی قوتیں ہمیشہ پسماندہ اقوام اور عامۃ الناس سے چھپانے کی کوشش کرتےہیں۔ اگر جدید دور میں ریاستی رٹ کا تصور عوامی فلاح و بہبود ہے تو یہ تصور بلوچستان میں وجود نہ دارد! ہاں اگر ریاست کا جدید تصور فقط فوج ہی ہے تو اس میں شک نہیں کہ بلوچستان پاکستان کا ایک مفتوحہ علاقہ بن چکا ہے جس کے وسائل ہی سے پنجاب اپنی عسکری قوت کو مزید تقویت دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ بلوچستان کے کونے کونے پر آپ کو ہزاروں کے حساب سے پنجاب آرمی کی چیک پوسٹیں لگی ہوئی نظر آئینگی، لیکن بلوچستان کے کسی بھی ایک بڑے شہر میں آپ کو کوئی ایک ایسا استپال نہیں ملے گا جہاں حتی ملیریا ٹسٹ کرنے کی مناسب لیبارٹری اور میڈیکل کٹ اور اوزار مل سکیں، کرونا وائرس کے ٹسٹ کرنے کی سہولت اور ڈاکٹروں کے حفاظتی پوشاک اور سازوسامان دور کی بات ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا فوج کی یہ ہزاروں چیک پوسٹیں بلوچستان میں اس لئے لگائی گئی ہیں تاکہ ترقی یافتہ بلوچستان کی ترقی کو کوئی نقصان نہ پہنچائے؟

مقبوضہ بلوچستان کے موجودہ سماجی نظام میں سماجی انصاف یا social justice کا تصوربلکل محال ہے۔ روزگار، بجلی، پانی، تعلیم، مواصلات، اسپتال، عدالت، خوراک اور پولیس غرض زندگی کے ہر شعبے کے حوالے سے بلوچ عوام سراپا احتجاج ہیں۔ گزشتہ 6 سال سے سوائے دو تین ڈسٹرکٹ کے باقی بلوچستان کے تمام ضلعوں میں انٹرنیٹ کی سہولت بلکل بند کی گئی ہے، کرونا کی وجہ سے اسکول کالج بند ہیں جس سےہمارے بچوں کی تعلیمی زندگیاں برباد ہو رہی ہیں، اوپر سے آنلائن تعلیم کا اجرا شروع کیا گیا ہے جبکہ بلوچستان میں انٹرنیٹ ہے ہی نہیں تو ہمارے بچے آنلائن تعلیم کیسے جاری کر سکتے ہیں؟ پاکستانی فوج روزانہ کی بنیاد پر بلوچ نوجوانوں کو بغیر کسی قانونی جواز کے اٹھاتی ہے۔ کیا مجال ہے کہ کوئی ان سے پوچھے کہ بھئی یہ غیرقانونی عمل کیوں کر رہے ہو، لوگوں کو عدالتوں میں کیوں پیش نہیں کرتے؟ اس غیرقانونی عمل سے آپ خود اپنی ریاست کی انتہائی اہم organ عدالتی نظام کی بیخ کنی کر رہے ہو! اس سے ریاست کی نفی ہوگی۔ کسی بھی دس جماعت کے طالب علم سے پوچھیں کہ بھئی بلوچستان کو کس قانون کے تحت اس طرح چلایا جا رہا ہے تو وہ بتائے گا کہ بلوچستان کی نام نہاد صوبائی اسمبلی جس میں فوج کے چنے گئے لوگ بلوچ نمائندے کے طور پر بٹھائے گئے ہیں وہ کوئٹہ کنٹونمنٹ کے بندوق بردار پنجابی جرنیلوں کے تیار کردہ اسکرپٹ کے مطابق چلتے ہیں۔

بلوچستان کے تعلیمی ماحول کو جان بوج کر خراب کیا گیا ہے، بلوچستان کی یونیورسٹی کے ہاسٹلوں میں ہماری بیٹیوں کی عزتوں پر بھی وار کیا جار رہا ہے تاکہ وہ شعوری طور پر تعلیم کی طرف راغب نہ ہوں! وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کی بیٹیاں بھی پنجاب کی یونیورسٹیوں کی لڑکیوں کیطرح اپنی عزتوں کو نظرانہ کریںنگی۔ بلوچستان کو مادی اور ذہنی پسماندگی کی طرف دھکیلنے کیلئے وہ سب کچھ کیا جا رہا ہے جس سے پنجاب کی اجارہ داری monopoly لوٹ مارکے سامنے کوئی رکاوٹ نہ بنے! پنجابی جرنیلوں نے بلوچستان میں انٹرنیٹ کی سروس کو اسلئے بند کردیا تاکہ بلوچستان کے اندرونی حالات باہر کی دنیا تک نہ پہنچ پائیں اور بلوچ طلباء جدید علمی معلومات تک رسائی حاصل نہ کرسکیں۔ کرونا وائرس وبا کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی بندش کے سبب طلباء کیلئے آن لائن اپنی تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کیلئے انٹرنیٹ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بنجابی بندوق بردار جرنیلوں نے اس سہولت کو بند اسلئے کردیا ہے تاکہ بلوچستان میں جاری آزادی کی جنگ میں سرمچار فائدہ نہ اٹھائیں۔ ارے عقل کے مارو، موجودہ جنگ گزشتہ بیس سال سے جاری ہے، جس وقت بلوچ مزاحمت شروع ہوئی اس وقت بلوچستان جیسے پسماندہ سرزمین میں انٹرنٹ کا تصور بھی محال تھا۔ یقین مانیے اگر بلوچ سرمچاروں کو مناسب کمانڈ ایند کنٹرول مادی وسائل اور ٹریننگ کی فراہمی ہو تو وہ مہینوں میں تمہاری اینٹ سے اینٹ بجا دینگے یہ بے سروسامانی کی حالت میں بھی بلوچ اپنی قوت منوا چکے ہیں۔

مجھ جیسے لوگ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں رشوت عام ہے بھئی یہ رشوت نہیں بلکن بخششِ عام ہے جسے حرف عام میںgeneral rewards کہتے ہیں آپ کی تمام کارکردگی اس بات پر ہے کہ آپ نے بلوچ سماج میں یعنی تعلیم و تربیت، صحت عامہ و صفائی، امن وامان پولیس محکمہ، عدالت و وکلاء سیاست اورانتظامیہ بجلی و آب غرض ہر محکمے میں جتنا زیادہ گندھ پھیلایا ہے اور کرپشن کی ہے اتنا ہی زیادہ آپ کیلئے عنایتیں اور بخششیں ہونگی۔ جس طرح انگریز نے بلوچستان کی قبائلی سسٹم کی سادہ دلی سے فائدہ اٹھا کر ہمیں اپنا غلام بنایا عین اسی طرح پنجابی جنرل بھی بندوق کی نوک پر ہمارے بلوچ سیاسی کرداروں کو ڈرا دھمکا کر استعال کرتے ہیں، ایک طرف انہیں اقتدار اور مراعات دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف بلوچستان کی پسنماندگی کو بھی ان ہی لوگوں کے سر پر ڈال دیتے ہیں کہ جی آپ کی پسماندگی کا سبب سردار ہیں، عجیب تماشہ ہے!

آپ بلوچستان کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں اور کسی بھی عام آدمی سے پوچھیں بھئی اگر کوئی آپ پر ظلم کرے تو کیا پولیس اور عدالتیں آپ کو انصاف دلائینگی تو وہ حیران ہوکر آپ سے الٹا یہ پوچھے گا کیا واقعی یہاں کوئی پولیس اور عدالت کا کوئی انتظام ہے؟ آپ بلوچستان پولیس کے رکارڈ کو نکال کر دیکھیں سارے پولیس سربراہان باہر پنجاب سے لاکر مسلط کی گئی ہیں! ان پولیس افسران اور کمشنران کی کارکردگی کو بلوچستان میں سڑکوں پر روزانہ کی بنیاد پر حادثات کے حوالے سے دیکھیں تو رونگھٹے کھڑے ہونگے۔ بلوچستان میں شاہراہوں پر حادثات کے بارے میں روزنامہ انتخاب کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال صرف اپریل کے مہینے میں مجموعی طور پر 123 حادثات پیش آۓ جن میں 101 لوگ جاں بحق اور 315 لوگ زخمی ہوۓ. جبکہ ایسے حالات میں کہ شاہراہوں پر کرونا لاک ڈاؤن کے سبب آمد و رفت کم رہی ہے مگر پھر بھی صرف ایک ہی مہینے میں اتنی تعداد میں حادثات کا واقع ہونا ایک ایسی سیچویشن کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ21 ویں صدی بلوچستان میں آئی ہی نہیں!

ایک لیویز فورس، اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود جو بلوچ روایتوں کا امین تھا اسے پاکستانی پنجابی افسران نے تباہ کرڈالا۔ اب اسے ایک ناکارہ پولیس سسٹم میں ضم کیا گیا ہے۔ لیویز فورس بلوچستان کی genuine کمیونٹی پولیس تھی، اس کا تعلق براہ راست عوام سے تھا۔ مجھے یاد ہے ہمارے بلوچستان کے ہر علاقے میں جب کوئی جُرم ہوتا تھا یا کسی نے کسی کے خلاف کوئی پرچی یا عرضی ڈالی تھی تو لیویز سپاہی اپنے اونٹ یا موٹرسیکل سے پرچی لیکر مطلوبہ شخص کے گھر اطلاعات دیتے تھے کہ فلانہ دن آپ کی تحصیلدار یا قاضی کے دفتر میں پیشی ہے، لوگ بخوشی جاکے حاضری لگاتے تھے۔ سچ پوچھو تو تحصیلدار کمشنر اور قاضی کے دفاتر کمیونٹی کلب کی مانند تھے بیروزگار اور بزرگ سفید ریش لوگ وہاں جاکے چائے پیتے تھے اپنا ٹائم بھی پاس کرتے تھے۔ پنجاب کی یلغار نے اس روایت کو ختم کر ڈالا ہے۔ انگریز اور گجراتی جناح کے اس ناکام پروجکٹ میں چالاک پنجابی اسٹیبلشمنٹ نے خود کو بندوق کی طاقت پر مسلط کیا ہے۔ انگریز کی پالیسیوں کو لیکرآج پنجابی جرنیل بلوچوں پر حکمرانی کر رہے ہیں اور اب بلوچوں کی نئی نسل کو یہ یقین ہوچلا ہے کہ پرامن انداز میں قومی حقوق کی بازیابی کا تصور ایک سراب ہے کیوںکہ پنجاب کی انتہا پسند کٹر قوم پرستی ہمارے جغرافیہ اور وسائل پر اپنی اجارہ داریت کو ترک کرنے کیلئے تیار نہیں!

Exit mobile version