Home آرٹیکلز مڈل ایسٹ جنگ کے دھانے پر۔ تحریر: عبیداللہ

مڈل ایسٹ جنگ کے دھانے پر۔ تحریر: عبیداللہ

0

غزہ کی جنگ نے ڈرامائی رخ اس وقت اختیار کر لیا جب اسرائیل نے دمشق میں ایرانی قونصل خانے کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میںIRGC کے سات ارکان مارے گئے، جن میں سینئر کمانڈر جنرل محمد رضا زاہدی بھی شامل تھے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ کہنا مشکل ہے کہ ایران کو کس چیز نے زیادہ ناراض کیا ہے IRGC کے اہم کمانڈر کی موت نے یا اس کے قونصل خانے پر حملے نے جسے بین الاقوامی کنونشنز کے مطابق خودمختار علاقہ سمجھا جاتا ہے اوراس پر کوئی بھی فوجی حملہ جنگی عمل کے طور پر لیا جاتا ہے۔

ایرانی انتقامی دھمکیوں کے سبب اسرائیل میں الٹ کی کیفیت قائم ہوچکی ہے۔ اسرائیل نے اچانک جنوبی غزہ سے فوجیں ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے جہاں وہ گزشتہ چند ماہ سے زمینی کارروائیاں کر رہا تھا۔ اور نگرانی کے سارے نظام کو مکمل چوکس کر دیا ہے۔ ایئر ڈیفنس اور اینٹی میزائل سسٹم آسمان کی نگرانی کر رہے ہیں جب کہ آنے والے میزائلوں کی رہنمائی میں خلل ڈالنے کے لیے جی پی ایس سسٹم کو غیر فعال کر دیا گیا ہے۔ لوگوں کو کھانے، پانی اور ادویات کے بازاروں میں شیلف خالی کرنے کی اطلاع ملی ہے اور انہیں پناہ گاہوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ اسرائیل خطے میں اپنے سفارت خانوں کو بھی خالی کر رہا ہے۔

ایرانی جوابی کارروائی کا عزم اپنی جگہ تاہم ماضی میں ایسا نظیر نہیں ملتا کہ ایران براہ راست کسی جنگ میں کھود پڑا ہو۔ اس کے پاس پراکسیوں اور ملیشیاؤں کی ایک طاقتور اور اچھی طرح سے لیس فورسز موجود ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس بار ایران پر براہ راست جوابی کارروائی کے لیے دباؤ کچھ زیادہ بڑھ چکی ہے۔ جوابی حملوں کی تیاری کے سلسلے میں ایران پہلے ہی جنگی مشقیں شروع کر چکی ہے۔

ایران نے اسرائیل کے خلاف تمام مسلم ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تمام تجارتی تعلقات کو فوری طور پر قطع کردیں۔ اس کے جواب میں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ تمام سفارتی رابطہ منقطع کر دیا ہے اس جنگ میں سیاسی اور عسکری مقاصد حاصل کرنے کیلئے ایران کے وزیر خارجہ نے مبینہ طور پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عراق اور قطر میں اپنے ہم منصبوں کو فون بھی کیا ہے جو کوئی بڑا فوجی یا سفارتی قدم اٹھانے سے پہلے ممکنہ دوستوں کے ساتھ معیاری سفارتی پروٹوکول سمجھا جاتا ہے۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایران جوابی حملہ کریگا۔ تاہم کیسے اس وقت ہر ایک کے ذہن میں سب سے اہم سوال یہی ہے ۔اندازوں کے مطابق ایران اپنی سرزمین سے حملے شروع نہیں کرے گی، اس آپشن کے امکانات بہت کم ہیں۔ تاہم اپنی تمام نیابتی محاذوں سے ایک وسیع اور مربوط حملہ کرے گی۔ جیسا کہ حزب اللہ کی طرف سے شمالی لبنان سے بڑی تعداد میں اسرائیل پر راکٹوں کی بارش، شام سے میزائل حملے، یمن اور خلیج فارس سے ڈرون حملے، غزہ، لبنان اور اردن کے قریب شامی سرحد کے پار اسرائیلی اثاثوں پر حملہ کے بھی امکانات زیادہ ہیں۔ خلیج فارس میں سمندری ناکہ بندی کا امکان بھی شامل ہے۔ خطے میں اسرائیلی یا امریکی سفارت خانوں پر دہشت گردانہ حملے بھی اس منصوبے کا حصہ ہو سکتے ہیں۔ عراقی مزاحمتی قوتیں پہلے ہی اسرائیل کے اہم مقامات بشمول حیفہ بندرگاہ، ایلیٹ بندرگاہ پر ڈرونز سے حملہ کر چکے ہیں، شمال میں سرحد کے ساتھ اسرائیل کی اہم مواصلاتی چوکیوں پر حزب اللہ کی جانب سے حملہ ہوسکتا ہے، اسی طرح بڑے پیمانے پر سائبر حملے پہلے سے ہی جاری ہیں۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا اسرائیل آخر کار اس بار ایران کو براہ راست جنگ میں شامل ہونے کی ترغیب دینے میں کامیاب ہوا ہے یا پھر ایران ایسی ’سرخ لکیر‘ عبور کرنے کا انتظار کر رہا تھا تاکہ وہ اسرائیل کے خلاف قانونی طور پر جنگ کا اعلان کر سکے۔ لیکن جنگ کی لکیریں اب واضح طور پر کھینچی گئی ہیں۔

خروج از نسخه موبایل