Homeخبریںمیر قادر بلوچ کا تحریک میں نظریاتی و فکری کردار

میر قادر بلوچ کا تحریک میں نظریاتی و فکری کردار

تحریر۔ بانک عروسا قادر بلوچ

ھمگام ۔آرٹیکل

 

جب سے میں اسے جانتی ہوں یا ہوش سنبھالی ہے تو اپنے والد کو بلوچ قومی سیاست اوربلوچ نیشنلزم کے ساتھ مضبوط وابسطگی کے طور پر دیکھا ہے میرے لئے ان کا کردار رول ماڈل کی طرح ہے مجھے قدرتی طور پر اپنے والد کے نظریات و تعلیمات و جدوجہد انتہائی زیادہ انسپائر کرتاہے کہ جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسی فکر و نظریہ کے ہمنوائی میں گزاری جیل و زندان کی تکالیفیں برداشت کی ریاستی دباؤ کا سامنا کیا ان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا لیکن وہ اپنے موقف سے دستبردار نہیں ہوئے ان کا حوصلہ چلتن کی پہاڑ کی طرح بلند تھاان کے خلاف 13سے زائد مختلف نوعیت کے کیسز درجہ تھیں لیکن وہ حوصلہ کے ساتھ ان کے سامناکیا وہ ایک غیر معمولی انسان تھا اس نے اتنی ریاستی بندشوں اور سختیوں کے باوجود کھبی بھی مایوس نہیں ہوا حوصلہ نہیں ہارا بلکہ ہمیں ہر وقت حوصلہ دیتے رہتے ہمارے بھی رہنمائی کرتے تھے ان کی تعلیمات روایتی سکولوں سے زیادہ موثر اور باعمل تھے وہ اپنے ذات میں ایک ادارہ تھے ایک یونیورسٹی تھے اس کا اکیڈمک اور سمبولک کردار تھا بلوچ قومی تحریک کے حوالہ سے ان کے پاس معلومات کا ایک وسیع ذخیرہ تھا وہ جب بھی جس موضوع پر بات کرتا سیر حاصل اور نتیجہ خیز حد تک بحث کرتا وہ بسا اوقات کنزرویٹر بھی تھا اور بسا اوقات سخت بھی اس کاکردار بلوچ نیشنلزم کے لئے سنگ میل اور مشعل راہ ہے ہم نے جو سیکھا سیاست سیاسی شعور تو ہمیں ورثہ میں ملا ہم نے جو سیاسی تعلیم حاصل کی تو اپنے بابا سے حاصل کی

اصل تعلیم وہ ہے جو آپ کے زہن کو غلامی کے زنجیروں سے آزاد کرے تعلیم وہ نہیں جو آپ کو غلامی پر آمادہ کرے اس لئے ہمارے بابا کا فکر آزاد تھا وہ ایک خوددار انسان تھاجب انسان زہنی طور پر آزاد ہوتاہے تو اسی دنیا کی کوئی طاقت اور تشدد غلام نہیں بنا سکتاجب انسان کی سوچ آزاد ہو تو وہ نہ تو کھبی جھک جاتاہے اور نہ کھبی بک جاتاہے ہمارے بابا کی تعلیمات میں یہ شامل تھا کہ غلط کو غلط کہناہی باضمیر انسان کی نشانی ہے ہم سے کہا کرتاتھا کہ زندگی میں اپنی ضمیر کا سودا کھبی مت کرنااور اپنی قوم وطن مٹی کے ساتھ با وفا رہنا ان میں یہ پیدائشی صفات موجود تھے مشکل حالات سے ٹکرا جانے کی بے دھڑک صلاحیت اپنی موقف پر ڈٹے رہنے کی عادت سامنے بات کی جرائت اور سب سے بڑھ کرزندگی میں زندگی سے کچھ بڑا کر گزرنے کی خوائش اور انہوں نے جو فیصلہ کیا وہ درست کیا اور آخری لمحہ تک وہ اپنے وطن اور قوم کی جدوجہد میں رہتے ہوئے ہم سے اگرچہ جسمانی طور پر جدا ہوگئے لیکن وہ نظریات اور خیالات کے حوالہ سے آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے اگرچہ وہ مصائب بھری زندگی گزار،ا تکلیف دہ حالات کا سامناکیا مشکلات راہ میں حائل ہوئے لیکن وہ صبر استقامت اور ثابت قدمی کے ساتھ ان کا سامنا کیا

آخر میں کہناچاہوں گی میں اپنے والد کو رسمی خراج عقیدت پیش کرکے اپنے فرائض اور زمہ داریوں سے بری نہیں ہونا چاہتی رسمی خراج

عقیدت سے صرف رسم ادا ہوسکتاہے ان سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہمیں ان کی سوچ عمل اور نظریات کی پیروی کرکے حقیقی خراج تحسین کا حق اد

ا کرسکتے ہیں وہ زندہ تھے تو ہمیں محسوس نہیں ہوتا تھا کہ بلوچ جدوجہد کے حوالہ سے ہمارے کندھوں پر کتنی زمہ داریاں ہیں لیکن ان کیب چلے جانے کے بعد ہم محسوس کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ناتواں کندھوں پر بھاری زمہ داریاں عائد کرکے ہمیں الوداع کیا اور ان کی سیاسی وراثت اور میراث ان کا فکر ہے بحیثیت بیٹی یا خاندان کا کوئی فرد اس کی جانشین تب بن سکتاہے جب اس کی فکر و عمل کی پیروی کریں ۔

Exit mobile version