یکشنبه, اکتوبر 20, 2024
Homeخبریںمیر یوسف عزیز مگسی بلوچ قومی آزادی کا رہنما تھا،؛بلوچ سالویشن فرنٹ

میر یوسف عزیز مگسی بلوچ قومی آزادی کا رہنما تھا،؛بلوچ سالویشن فرنٹ

کوئٹہ (ہمگام نیوز ) بلوچ وطن موومنٹ، بلوچستان انڈیپینڈنس موومنٹ اور بلوچ گہارموومنٹ پر مشتمل الا ٸنس بلوچ سالویشن فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ ایک بیان میں کہاہے کہ بلوچ قوم دوست رہنمإ یوسف عزیز مگسی ایک آزاد و جمہوری و خود مختیار بلوچستان کے لیئے سیاسی ادبی سفارتی اور قلمی جدوجہد کی جن کی کثیر الجہتی خدمات بلوچ قو م کےلٕےروشن راہ ہے اسے ایک فرد نہیں کہا جاسکتا وہ ایک فکر اور مکتب کا نام ہے اگرچہ آج وہ ہمارے درمیان میں موجود نہیں لیکن ان کا نظریاتی ورثہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے بیسویں صدی کی بلوچ تاریخ آزادی یوسف عزیز مگسی کو ان کی جدوجہد اور قربانیوں پر ہمیشہ خراج تحسین پیش کرتی ہے اور ان کی بے وقت جدائی کو بلوچ تحریک آزادی کے لئے ایک خلاء قرار دیتاہے ترجمان نے کہاکہ یوسف عزیز مگسی انتہائی کم عمری اور کم وقت میں بلوچ قومی آزادی کے لئے جو کوششیں کی وہ بعد میں بلوچ جہد آزادی کے تاریخی تسلسل کے لئے طاقت اور قوت کا سبب بن گئی۔ 1935کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے زلزلے نے اگرچہ یوسف علی خان کو جسمانی طور پر ہم سے جدا کردیا لیکن ان کے فکر اور نظریات کومٹی تلے دفن نہ کر سکی اور ان کی حریت پسند فکر آج بلوچ قوم کے لئے نشان راہ ہے ترجمان نے کہاکہ پارلیمنٹ کے رکھیل اور آزادی مخالف قوتوں کو میر یوسف عزیز مگسی کے برسی منانے کا کوئی حق حاصل نہیں یوسف عزیز مگسی بلوچ آزادی کا رہنماءتھاصوبائی خود مختیاری مانگنے والوں کی جانب سے ان کی برسی منانے کا مقصد ان کی قومی و نظریاتی جدوجہد کو بگھاڑنے کی کوشش ہے میر یوسف عزیز مگسی بلوچ اور بلوچستان کی تاریخ میں ایک حریت پسند رہنماءکے طور پر مقبول ہے یوسف عزیز مگسی اپنی تمام زندگی قومی آزادی کی جدوجہدمیں وقف کی پارلیمانی ایوانوں میں پرتعیش زندگی گزارنے والے یوسف عزیز مگسی کے پیروکار نہیں بلکہ ان کے فکر کے دشمن ہے ۔ ترجمان نے کہاکہ یوسف عزیز مگسی برٹش قبضہ گیروں کے بلوچ مملکت پر قبضہ اور بلوچ وحدت کی جغرافیائی اور انتظامی تقسیم کے خلاف کثیر الجہتی جدوجہد کی داغ بیل ڈالی وہ بلوچ مذاحمت اور جدوجہد کو قومی سطح پر منظم اور یکجاءکرنے کے ساتھ ساتھ آزادی کے وسیع تر مطالبہ کو بین الاقوامی موبلائزیشن سے منسلک کرکے سیاسی سفارتی صحافتی اور ادبی محازوں پر کام کی ان کی شہادت کے گزرے ہوئے ساتھ دہائی ان کی جدوجہد اور زندگی ہمیں مل کر درس دیتی ہے کہ غلامی اور ناانصافی کے اس کے وحشیانہ نظام کے خلاف آخری فتح تک جدوجہد کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز