Homeآرٹیکلزمیں اپنی معطلی کے وجوہات طلب کرنا چاہتا ہوں

میں اپنی معطلی کے وجوہات طلب کرنا چاہتا ہوں

میں اپنی معطلی کے وجوہات طلب کرنا چاہتا ہوں

حاجی حیدر

میں اپنے جذبات،احساسات و خیالات ایک تحریر کے شکل رکھ کر آپ لوگوں کے سامنے پیش کررہا ہوں۔میں نے تنظیم میں جو دیکھا محسوس کیا وہی بیان کررہا ہوں بقول جون ایلیا ” جو دیکھتا ہوں وہی بولتا ہوں میں اس معاشرے کا سب سے بڑا فسادی ہوں” خدا گواہ ہے مجھے اس چیز کا بخوبی علم ہے میرے جذبات کے ترجمانی یہ الفاظ نہیں کرسکے گے۔

میں ایک سیاسی کارکن ہوں، طالب علم ہوں بڑے ادیب و لکھاری ہونے کا دعویدار ہر گز نہیں اور نہ ہی میں نے کوئی ایسا غلط کام کیا ہے جو میرے نام سے منسوب کیا جارہا ہے کہ میں نے تنظیم کے اندر پروپیگنڈے کی ہے، اس بات کا دعوی نہ سینٹرل کمیٹی کے پاس موجود ہے نہ کسی اور جگہ اس جرم کا مرتکب ہوا ہوں۔

بقول ڈاکٹر چے گویرا “میں بحیثیت انقلابی، جہدکار اور گوریلا اپنے اس بنیادی حق کے لیئے ہمیشہ و ہر وقت اپنے قیادت اور پارٹی سے لڑوں گا، جس حق کے لیئے میں جدوجہد کا حصہ بنا، یعنی یہ میرا بنیادی حق ہے کہ مجھے لڑائی کی ذمہ داری سونپنے، رسک لینے اور اپنا کردار نبھانے کا موقع فراہم کیا جائے، تاکہ میں تحریک و تنظیم میں اپنا تاریخی کردار ادا کروں۔”
میں بذات ایک سیاسی کارکن ہمیشہ اپنے سینٹرل کمیٹی کے دوستوں کے اوپر یہ تنقید کیا ہے جس مقصد کیلئے ہم سب نے اس تنظیم میں جوڑنے کا فیصلہ کیا ہے کیا ہم اس تنظیم کے قواعد وضوابط کو پورا کررہے ہیں ؟ کیا تنظیم کے ممبران کی سیاسی رہنمائی ہم کررہے ہیں؟ کیا ہم ہر جگہ ایک نعرہ لگا رہے BSAC Stand for unity & knowledge ” کیا ہم واقعی تعلیم اور سیاسی جڑت پر کام کررہے ہیں؟

ساتھیوں! جب تک یہاں ہاں میں ہاں ملائیں آپ نہایت شریف ترین اعلی ترین انسان سمجھے جاتے ہیں جہاں ذرا اختلاف رائے پیدا ہو، آپ منافق، آحمق، بکاو کہلانے لگتے ہیں۔ بقراط، سقراط، سوڈو انٹلیکچوئل کا طعنے دیکر آپ کو ڈی مورالائیز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کسی طرح آپ اپنی رائے سے تائب ہوجائیں یا ویسا سوچنے اور بولنے لگیں جیسا ہم سوچتے اور بولتے ہیں۔

ساتھیوں! ہمارے اکثر سیاسی پارٹیاں اب تک جمہوری کلچر تک کو فروغ نہیں دے پائیں۔ ماوزے تنگ کا مشہور زمانہ مضمون “پارٹی اور اختلاف” سیاسی ممبران تو دور کی بات ہمارے اکثر طلباء تنظیموں کے عہدا داروں نے بھی شاید ہی پڑھا ہو۔ میں نے ہمیشہ تنظیم کے اندر سیاسی تربیت کی بات کی ، انہیں ایک پیر کے مقلد اور سیاسی ورکر میں فرق سمجھانے کی کوشش کی۔

ساتھیوں ایک امر انتہائی قابل غور ہے اور جسے ایک تنظیمی کارکن کو تنظیم سے وابستگی کے پہلے دن سے آخری دم تک نہیں بھولنا چاہیئے کہ اس نے تنظیم سے جڑنے کا فیصلہ کیوں لیا تھا؟ چاہے کوئی بیس سال سے تنظیم سے منسلک ہو یا کوئی نوخیز نوجوان ہو، اسکا بنیاد وہی فیصلہ ہوتا ہے جو اسکے جڑت کا سبب بنا تھا۔ وہ فیصلہ ہمیشہ تنظیم و تحریک میں اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے، جس میں کوئی ذاتی غرض و مقصد نہیں ہوتا۔ ایک سیاسی ورکر اس بنیاد سے جتنا دور ہٹتا جاتا ہے، وہ اتنا ہی عمومیت، مراعات، آسائش، آرام اور پروٹوکول کیجانب مائل ہوجاتا ہے۔ پھر و کارکن کے اندر ہی ایک ایسی زندگی کی امید اور مانگ رکھنے لگتا ہے جو تنظیم کے بنیادی تقاضوں سے ہی متضاد ہوتا ہے، اس پر ستم یہ کہ آگر ایک بار وہ اس عمومیت کا عادی ہوجائے پھر وہ دوبارہ اپنے بنیادی فیصلے کیجانب لوٹائے جانے، یعنی تنظیم میں ایک متحرک کرادر ادا کرنے کو خود کیساتھ زیادتی سمجھنے لگتا ہے ۔ اگر اس سوچ کا جلد قلع قمع نا کیا جائے تو وقت کیساتھ ساتھ ایسے سیاسی کارکن بلکہ لیڈروں کے حجم میں ایک غیر ضروری اضافہ ہوتا جاتا ہے، جو تنظیم کے اندر ایک غیر رسمی سوچ کی آبیاری کرتے ہوئے ایک منفی غیر رسمی سیاسی تشکیل دیکر تنظیم کے رفتار، سمت اور فطرت کو ہائی جیک کرلیتے ہیں۔

ساتھیوں تنظیموں کے اندر ایسی صورتحال سے بچنے کیلئے سب سے اہم کردار رہنماوں و ذمہ داروں کا ہوتا ہے ۔ کام کرنے سے زیادہ مشکل، کام لینا خاص طور پر صحیح بندے سے صحیح کام لینا ہوتا ہے۔ آپ اسلیئے رہنما یا ذمہ دار ہیں کہ آپ صرف کام نہیں کریں بلکہ آپ ہر کارکن سے اسکے صلاحیتوں کے مطابق کام لیں۔اگر کوئی ممبر یہ فیصلہ کر کے تنظیم سے جڑا ہے کہ اسے اپنا کردار ادا کرنا ہے، تو یہ آپکا کام ہے کہ آپ اسے بتائیں کا اسکا کردار کیا ہے، اور اسکا کرادر نبھانے کا موقع دیں۔ اگر کوئی تنظیم سے جڑنے کے باوجود سالوں بیکار بیٹھا رہتا ہے، تو یہ رہنما یا اس زمہ دار کی ناکامی ہے۔ پھر اسے اپنے ذمہ داریوں سے دستبردار ہونا چاہیئے۔

جیسا کہ اس تحریر کا ابتداء ہی ڈاکٹر چی الفاظوں سے کہا گیا تھا تو آج بحثیت ایک سیاسی کارکن اپنے اس بنیادی حق لیے آج بیساک کے مرکز سے میں اپنی معطلی کے وجوہات طلب کرنا چاہتا ہوں کہ کس بنیاد پر مجھے معطل کیا گیا ہے۔

*مرکزی چیئرمین ڈاکٹر نواب کا شال میں موجود ہوتے ہوئے کیوں مسئلے کو ایک جونیئر ممبر کے ہاتھوں سونپ دیا گیا ؟

*مجھے بیساک کے جونیئر ممبر ڈاکٹر ماہ رنگ نے کیوں معطل کیا ؟

* کونسی آئین میں لکھا ہے کہ تنظیم کے مرکزی کابینہ کے عہدیدار کو ایک جونیئر ممبر معطل کرسکتا ہے؟

*مرکزی چیئرمین نے میرے معطلی کے فیصلے کے بعد کیوں لاتعلقی کا اظہار کیا؟

*مجھے سات مہینوں تک کیوں معطل کیا گیا؟
اور تنظیمی آئین کے کونسی شِق میں سات مہینے کی معطلی کو جائز قرار دیا گیا ہے؟

*اگر مجھے معطل کیا گیا تو پھر ممبرز کو مجھ سے سوشل بائیکاٹ کرنے کا کیوں کہا گیا؟

*مجھے خاموش کرنے کیلئے مختلف فیک آئی ڈیز سے مجھے کیوں خاموش رہنے کیلئے دھمکی دیا گیا؟

یہ ایک سوچنے اور مشاہدہ کرنے کی بات ہے کہ بی ایس اے سی کے مرکزی کونسل سیشن کے قریب ہوتے ہی ڈاکٹر مھرنگ نے مجھے معطلی کے لیٹرز وٹس اپ کیے جب میں نے وجہ پوچھا تو جواب ملا کہ اگر آپ نے خاموشی اختیار نہیں کی تو ہمارا دوسرا قدم یہ ہوگا کہ آپ کو تنظیم سے فارغ کرینگے۔ میں ڈاکٹر مھرنگ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ میں نے کونسا غلطی کیا تھا کہ مجھے اسطرح خاموش رہنے کا کہا گیا جو آج تک میں اور بی ایس اے سی کے کارکنان الجھن کے شکار ہیں۔
مجھے پہلے بھی مرکز کے چند ایک دو ساتھیوں نے کہا تھا کہ آنے والے کونسل سیشن سے پہلے آپ کو اپنے عہدے سے دستبردار ہونا ہے۔ تو میں نے وجہ پوچھا تو جواب ملا کہ کچھ اور ساتھیوں کو موقع دو۔ اس بات پر میں بالکل انکاری رہا اور میرا بار بار کوشش یہ رہا کہ اس مرتبہ کونسل سیشن میں صاف شفاف الیکشن ہو تاکہ زمہ دار اور مخلص کارکنوں کو تنظیمی زمہ داریاں نبھانے کا موقع مل سکے۔ مگر مجھے اس بات پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ اس مرتبہ ڈاکٹر مھرنگ کو بی ایس اے سی کے چیئر پرسن اور اسکے ساتھیوں کو دیگر مرکزی زمہ داریاں دینگے۔ میں نے بی ایس اے سی کے مرکزی دوستوں کے اس عمل پر ہر وقت سوالات اٹھاتا رہا کہ کونسل سیشن میں الیکشن کی جگہ سلیکشن کی جائے تو یقیناََ یہ عمل بی ایس اے سی کے ان کارکنوں کی حق تلفی اور حوصلہ شکنی کا سبب بنے گا جو شبانہ روز بی ساک کے کاموں میں صفحہ اول کا کردار ادا کرکے اپنے پسینے بہا رہے ہیں جو کہ یہ عمل سراسر ان طلباء کیلئے دھوکہ ہوگا۔
میں خود حیران ہوں کہ شاید مجھے اس سوالات کے جرم کی پاداش میں ڈاکٹر مھرنگ نے معطل کر دیا یا کس بنیاد پر ؟ میں نے مرکزی دوستوں سے دریافت پوچھا تو بار بار مجھے خاموش رہنے کا کہا گیا اور اس بات کو آج سار مہینے گزر چکے ہیں میں اور بی ساک کے تمام کارکنان جوابات کا انتظار کر رہے ہیں۔

ساتھیوں یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج بلوچ طلبا سیاست میں ذرہ غور سے دیکھا جائے، کچھ ایسے غیر روایتی رجحانات جنم لے چکے کہ تنظیم ہمارے ذاتی و مادی ترجیحات، ضروریات، مفادات اور خواہشات کو پورا کرے، ہمیں پرسکون حالات و پرسکون ماحول میں آسودہ و آرام دہ زندگی گذارتے دے اور کوئی تنظیمی کام و ذمہ داری کا موقع بھی نہ دے، بس آرام سے بھیٹنے دے، پھر ہم بہت خوش و مطمین ہونگے کہ تنظیم قیادت ہمیں ہمارا بنیادی دیکر خوب سنبھال رہا ہے۔ ساتھیوں کیا یہ خود اپنے آپ سے بحثیت ایک سیاسی کارکن بڑا دھوکا اور ظلم نہیں ہوگا؟ یا پھر تنظیم قیادت کیطرف سے کسی سیاسی کارکن کے کردار کو مسخ کرنے کا بے رحم عمل نہیں ہوگا؟

Exit mobile version