واشنگٹن (ہمگام نیوزڈیسک) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک کے سائنسی رپورٹس کے مطابق 1990 کی دہائی میں جب پہلی دفعہ 5 ممالک امریکا، روس، کینیڈا، یورپین یونین اور جاپان کے تعاون سے خلا میں زمین کے درمیانے درجے کے مدار ( Low earth orbit) انسانی مرکز کے قیام کے منصوبے کا آغاز کیا گیا تو تحقیقی محققین اور سائنسدانوں کا مقصد محض اتنا تھا کہ اس مرکز میں کچھ عرصے تک قیام کرکے ناسا اور دیگر ممالک کی خلائی ایجنسیز کے خلاباز خلا میں اہم تحقیقات کریں گے۔ جن سے مستقبل کے خلائی مشن خاص طور مریخ پر انسانی کالونیوں کے قیام کے متعلق اہم معلومات حاصل ہوں گی۔
یہ خلائی مرکز 1998 سے 2011 کے دوران مختلف مراحل میں تکمیل کو پہنچا اور اب بھی اس میں تبدیلیاں کی جاتی رہتی ہیں تا کہ خلا بازوں کے یہاں قیام اور تجربات کو محفوظ بنایا جا سکے۔
اگرچہ پہلے ناسا بین الاقوامی خلائی مرکز کو 2022 تک بند کر دینے کا ارادہ رکھتا تھا مگر اب کچھ نا گزیر وجوہات کی بناء پر اس عرصے میں توسیع کر کے خلائی مرکز کو 2025 تک فعال رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
1998 میں جب اس خلائی مرکز پر امریکا اور روس نے اپنے خلا باز بھیجنے شروع کیے، تو ابتدا میں ان کے قیام کا دورانیہ کچھ ہفتے یا ایک ماہ رکھا جاتا تھا کیونکہ خلا میں مسلسل بے وزنی کی حالت میں رہنے کے باعث خلابازوں کا جسمانی نظام بری طرح متاثر ہوتا تھا، مگر گزشتہ 21 برس کے دوران وہاں دیرپا قیام اور سائنسی تجربات کے لیے بے پناہ سہولیات فراہم کی گئیں۔
خلائی مرکز کے اپنے محور(ایکسز) کے گرد گردش سے مصنوعی کشش ثقل پیدا کی گئی جس سے بے وزنی کی حالت بتدریج کم ہوتی گئی جس کے ساتھ ہی 3 سے 6 خلابازوں کے مرکز میں قیام کا دورانیہ مسلسل بڑھایا جاتا رہا، خلا بازوں کو اس مرکز میں بھیجنے کے لیئے 2011 سے مستقل روس کا سویوز خلائی کیپسول استعمال کیا جاتا ہے جو ایک وقت میں صرف 3 خلا بازوں کو لانے لے جانے کا کام کرسکتا ہے۔
خلائی مرکز میں اب تک سب سے زیادہ قیام کا ریکارڈ امریکی خلاباز اسکاٹ کیلی کے پاس ہے جنہوں نے مارچ 2015 سے مارچ 2016 تک پورا ایک سال وہاں گزارا۔ جب کہ خواتین میں یہ اعزاز پیگی وٹسن کے پاس ہے جنہوں نے 5 مہمات میں کل 665 دن خلائی مرکز میں گزارے ہیں۔