Homeانٹرنشنلنیتن یاہو اور سموٹریچ کا واشنگٹن میں خیرمقدم نہیں ہوگا

نیتن یاہو اور سموٹریچ کا واشنگٹن میں خیرمقدم نہیں ہوگا

واشنگٹن ( ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل اور امریکہ کے درمیان آباد کاروں کو مغربی کنارے میں چار بستیوں میں واپس جانے کی اجازت دینے کے قانون کے بعد تنازع شدت اختیار کر گیا ہے۔ واشنگٹن نے اس فیصلے کو اشتعال انگیز قرار دیا اور واضح کیا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو واشنگٹن کے جس دورے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں یہ خوش آئند نہیں ہے۔ نتین یاھو کا واشنگٹن میں پر تپاک استقبال نہیں کیا جائے گا۔ اسرائیلی اس واضح موقف تک پہنچ گئے ہیں کہ امریکی ان کا پرتپاک استقبال کریں گے نہ ہی ان سے اعلی سطح کی ملاقاتیں ہوں گی۔ امریکیوں نے اشتعال انگیزی بیانات کے بعد وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ کے ساتھ ملاقاتوں سے انکار کا اعلان کر دیا ہے۔

 

امریکی محکمہ خارجہ نے ایک طرف اس قانون اور بستیوں کی توسیع کے خلاف خبردار کرتے ہوئے اسے اشتعال انگیز قانون قرار دیا وہیں سیاست دانوں اور سیکیورٹی حکام نے امریکا کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے اثرات سے خبردار کیا ہے۔ اسرائیلی کے سابق وزیر ایویگڈور لائبرمین نے اس قانون کی منظوری پر کہا ہے کہ واپسی کے منصوبے کو منسوخ کرنا اس حکومت کی طرف سے لیا جانے والا سب سے خطرناک فیصلہ تھا جس سے وہ بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ ہو جائے گا۔

 

نیتن یاھو نے اتحاد برقرار رکھنے کے لیے رجعت کا مظاہرہ کر رہے

امریکہ کی طرف سے دی جانے والی دھمکیوں خاص طور پر نیتن یاہو کے آئندہ دورہ واشنگٹن کے دوران ان کے ساتھ ملاقاتیں نہ کرنے کے اعلان نے نیتن یاھو کو قانون کے دفاع میں بیان جاری کرنے پر آمادہ کیا، تاہم انہوں نے اعلان کیا کہ ان کی حکومت بستیوں کو بڑھانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھائے گی۔ نیتن یاہو نے کہا کہ کنیسیٹ کا قانون کے کچھ حصوں کو منسوخ کرنے سے ایک امتیازی اور توہین آمیز قانون کو ختم کیا گیا۔ یہ وہ قانون تھا جو یہودیوں کو شمالی مغربی کنارے کے علاقوں میں رہائش اختیار کرنے سے روکتا ہے۔

 

واشنگٹن نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے اقدامات کیے اور امریکی وزارت خارجہ نے واشنگٹن میں اسرائیلی سفیر مائیک ہرزوگ کو طلب کیا۔ امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین نے 2005 سے علیحدگی کے قانون کے حوالے سے ریاستہائے متحدہ کی تشویش کا اظہار کیا۔ شمالی مغربی کنارے میں آبادیوں سے متعلق تشویش ظاہر کی گئی۔ شرمین نے کہا کہ سموٹریچ حکومت میں اکیلا نہیں ہے ۔ وہ امریکی موقف پر کان نہیں دھرتا اور اسرائیلی بیانات توہین آمیز، انتہائی پریشان کن اور خطرناک ہیں۔

 

یورپی یونین نے بھی قانون میں ترمیم کی توثیق کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے تشویش پر قابو پانے کی کوششوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اعتماد کے لیے تعمیری اقدامات جاری رکھنا اور بات چیت کے لیے سیاسی افق پیدا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ یورپی یونین کے مطابق یہ بستیاں امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں اور دو ریاستی حل کے لیے خطرہ ہیں۔

 

نیا قانون غزہ کو شامل کیے بغیر مغربی کنارے کی بستیوں سے متعلق ہے۔ اس کا مقصد شمالی مغربی کنارے کی چار بستیوں میں آباد کاروں کو واپس کرنا اور ان بستیوں میں داخل ہونے یا رہائش پذیر آبادکاروں پر عائد مجرمانہ سزا کو ختم کرنا ہے۔ قانون شمالی مغربی کنارے میں بے ترتیب چوکیوں کو قانونی جواز فراہم کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے۔

 

مزید اشتعال انگیز اقدامات

اس قانونی ترمیم کے بعد امریکی، فلسطینی اور بین الاقوامی انکار کے دوران ہی آباد کار ’’ حومش‘‘بستی کی چوکی میں داخل ہوئے اور تورات انسٹی ٹیوٹ پہنچے جسے خالی کر دیا گیا تھا۔ یہ سب ایسے وقت میں کیا گیا ایسے وقت میں جب اسرائیلی وزیر برائے آبادکاری اورٹ سٹروک نے دھمکی دی کہ وہ اور اس کی پارٹی (بیزلیل سموٹریچ پارٹی) کی ایک اور کنیسٹ رکن آپ اسرائیلی حکومت کے عدلیہ کو کمزور کرنے کے منصوبے کی قانون سازی پر ووٹ کا بائیکاٹ کریں گے۔ شمالی مغربی کنارے میں علیحدگی کے منصوبے کو منسوخ کرنے کی منظوری نہیں دی گئی ہے۔ اس دھمکی کے نفاذ کے خوف سے حکومتی اتحاد نے سٹروک کو مطلع کیا کہ اس ہفتے کے آخر تک علیحدگی کے قانون پر ووٹنگ اور آخرکار منظوری دے دی جائے گی۔

 

وزیر خزانہ سموٹریچ نے اس قانون کی تعریف کی اور اسے آبادکاری کے منصوبے کے لیے ایک بڑی فتح قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ اسرائیلی کنیسٹ اور ہمارے اتحاد نے متعدد قوانین سے اخراج کے داغ کو مٹانے کا آغاز کر دیا ہے۔

 

قومی سلامتی

ایک سے زیادہ عہدیداروں کی جانب سے شروع کیے جانے والے تیز امریکی مؤقف نے اسرائیلی تشویش کو بڑھا دیا کہ نیتن یاہو کو امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے پذیرائی نہیں ملے گی۔

 

قومی سلامتی کونسل کے ڈپٹی چیئرمین چک فریلچ نے امریکہ کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے خطرات کے بارے میں تشویش کو چھپایا نہیں اور نیتن یاہو۔ بائیڈن کی گفتگو پر کے متعلق بتایا کہ اس میں عدالتی اصلاحات میں پیش رفت کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا گیا جو امریکی مفادات کی علامت ہے۔ انہوں نے اسرائیل میں فیصلہ سازوں کی پالیسی پر عدم اطمینان اور واشنگٹن کے ساتھ اچھے تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جب اسرائیلی حکومت اہم اقدامات کرنا چاہتی ہے تو اسے امریکہ کے مفادات کو مدنظر رکھنا چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ وہ امریکہ کے مفادات کو برقرار رکھے گا۔ امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات اسرائیل کی قومی سلامتی کا ایک اہم جز ہیں۔

 

بائیڈن نے دو ماہ کے وقفے کے بعد نیتن یاہو سے رابطہ کرنے کی پہل کی تھی تاکہ ایک طرف عدالتی اصلاحات کے منصوبے اور دوسری طرف فلسطینی منظر نامے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا جا سکے۔

 

اسرائیلی قومی سلامتی کونسل کے نائب سربراہ کے مطابق نیتن یاہو کے ساتھ امریکی صدر کی کال اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتی کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی مضبوط بنیادوں کے باوجود بائیڈن انتظامیہ اس بات پر یقین نہیں رکھتی کہ اسرائیلی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کے متعلق ناراضی اور تشویش کو چھپایا جائے۔ فریلچ نے کہا نیتن یاہو کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کرنے میں امریکی صدر کی ہچکچاہٹ ناراضی اور تشویش کا نمایاں اظہار ہے۔

 

امریکہ اسرائیل کے درمیان پریشان کن پیش رفت ایک حقیقی خطرے کی نشاندہی کر رہی ہے۔ اس سے خدشہ پیدا ہوگیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان ٹھوس بنیاد ہل کر رہ جائے گی جس پر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا جال بنا تھا۔ اسی ٹھوس بنیاد کی بنا پر اختلافات کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان ہمیشہ قائم رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک نیا سروے بھی سامنے آیا ہے جس میں ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے سروے کے شرکا کے 49 فیصد نے خود کو فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا کیا اور 38 فیصد نے اسرائیل کی حمایت کی۔

 

فریلچ کا خیال تھا کہ اگرچہ واشنگٹن اب تک اسرائیل کے ساتھ ہمدردی اور اس کی سلامتی کے عزم کی تصدیق کرنے کا خواہاں رہا ہے لیکن دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی نے ان کے درمیان تعلقات کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔ مختصر مدت میں مسئلہ فلسطین خطرے کا بنیادی مرکز بن گیا ہے۔ اردن کے دارالحکومت عمان اور شرم الشیخ میں ہونے والی حالیہ ملاقاتوں میں یکطرفہ اقدامات کیے گئے جن میں لاتعلقی کی منسوخی کا قانون بھی شامل ہے۔ نیا قانون امریکی انتظامیہ کی ناراضگی میں بہت زیادہ اضافہ کر سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا جیسا کہ اسرائیل میں وسیع تر اتفاق رائے کے بغیر عدلیہ کا چہرہ بدلنے کی قانون سازی کی جارہی۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل کی واحد جمہوری ملک کے طور پر امریکہ کو اپنی اہمیت ظاہر کرنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچے گا۔

 

فریلچ نے اسرائیلی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ امریکہ کے فوری مفادات کے خلاف کام جاری رکھنا دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ خاص طور پر اس حساس دور میں جب ایران کی جانب سے سیکورٹی کے چیلنجز پیدا ہو رہے ہیں۔ ایران عزم کے ساتھ اپنے جوہری منصوبے کو آگے بڑھا رہا ہے۔ اس موقع پر اسرائیل اور امریکہ کے درمیان ہم آہنگی کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بات جاری رکھی اور کہا کہ اسرائیل کے رویے اور دونوں ریاستوں کے درمیان تعلقات کی خصوصیات طویل مدت میں ہونے والے آبادیاتی، اقتصادی اور سماجی عمل کے تناظر میں بہت اہمیت کی حامل ہوں گی۔ یہ رویہ اسرائیل کے لیے امریکی طویل مدتی وابستگی کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ یہ خطرات تل ابیب کے مفادات کے لیے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ یہ خطرات جلد یا بدیر دونوں ممالک کے درمیان خصوصی تعلقات کے نیٹ ورک کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

Exit mobile version