کوئٹہ ( ہمگام نیوز ) نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے زیر اہتمام 26 اگست کو نواب اکبر خان بگٹی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے کوئٹہ پریس کلب میں ایک ریفرنس کا انعقاد کیا گیا. جس کی صدارت پارٹی کے ڈپٹی آرگنائزر رشید کریم بلوچ کر رہے تھے. جب کہ پارٹی کے سینٹرل کمیٹی ممبر غنی بلوچ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دے رہے تھے. ریفرنس سےپروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ، ڈاکٹر دین محمد بزدار ، پشتون سیاسی رہنماء افراسیاب خٹک، بلوچ بار کونسل کے کامریڈ رسول بخش نے خطاب کیے
ریفرنس کا آغاز نواب اکبر خان بگٹی سمیت ہزاروں شہداء کی یاد میں 2 منٹ کی خاموشی اور بزرگ بلوچ رہنما سردار عطاء اللہ کی صحتیابی کے لئے اجتماعی دعا سے کیا گیا.
نواب اکبر خان بگٹی کی سیاسی زندگی پر ایک ڈاکومینٹری پیش کی گئی
پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ بار کونسل کے کامریڈ رسول بخش نے کہا کہ بگٹی کی شہادت کا دن بلوچ تاریخ میں سیاہ باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے ریاست سے اپیل کی کہ نواب اکبر خان بگٹی کے قاتل کو انٹرپول کے زریعے گرفتار کرکے پھانسی کی سزا دی جائے.
ڈاکٹر دین محمد بزدار نے اپنے خطاب میں نواب اکبر خان بگٹی کی سیاسی زندگی کے مختلف مراحل اور نشیب و فراز کو زیر بحث لایا ۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ سچ کے زریعے ہی ہم زندہ رہ سکتے ہیں سچ ہماری زندگی میں اس کھڑکی کی مانند ہے جہاں سے اسے آکسیجن مہیا ہو رہا ہے۔ انہون نے نواب اکبر خان بگٹی کی نیب سے نزدیکی اور بعد ازاں زولفقار بھٹو کے قریبی ساتھی بننے تک کے سفر پر بھی روشنی ڈالی۔
انہوں نے مزید کہا کہ نواب بگٹی وہ شخصیت تھے کہ جس نے بلوچ کی ملکیت گوادر کو دوبارہ خرید کر ہی بلوچستان میں شامل کیا گیا.
انہوں نے کہا کہ نواب اکبر خان کئی بار اقتدار میں آئے مگر حقائق کو جاننے کے بعد آپ کو معلوم ہوگا کہ اکبر خان نے کبھی اپنے لئے دولت نہیں بنایا بلکہ انہوں کئی بہترین کام بھی کئے جس میں بلوچی، براہوئی اور پشتو کو بنیادی تعلیم میں شامل کرنا تھا۔ جب مشرف کے دور میں میگا پروجیکٹس کا آغاز ہوا تو کہا گیا کہ گوادر کو کراچی کی طرح ترقی دے کر آباد کیا جائےگا تو اس وقت نواب کا موقف تھا کہ اس ترقی کے پیچھے تقریبا 1 کروڈ تک آبادکاری میں بلوچ کی حیثیت کیا ہوگی، ہر بلوچ خوف کا شکار ہوگا کہ اسکی شناخت ختم ہو جائےگی۔ نواب صاحب نے نا صرف اسکے لئے مزاحمت کیے بلکہ مزاکرات کا طریقہ بھی اپنایا۔ اپنے آخری وقت میں بھی ریاست کے ساتھ مزاکرات کرنے کے لئے آمادہ تھے مگر اسی دوران جب ان پر پہلا حملہ ہوا تو یقین ہو گیا تھا کہ اب ریاست مزاکرات کے بجائے انہیں قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جسکے بعد انہوں نے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا۔
پشتون رہنما افرسیاب خٹک نے اپنے خطاب میں شہید نواب اکبر خان بگٹی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ نواب اکبر بگٹی شہید کی شہادت کے موقع پر پشتون قوم سمیت و جمہوریت پر یقین رکھنے والے برابر کے شریک ہیں۔ مجھے یہ شرف حاصل رہا کہ میں نیپ میں بلوچ قوم پرست ترقی پسند قیادت کے ساتھ مل کر جدوجہد کی اور جیلوں میں بھی گیا۔ اکبر خان بگٹی سے ملاقات کے مواقع انکی زندگی کے آخری دنوں میں ملے جب کہ اس سے پہلے نواب خیر بخش مری، میر غوث بخش بزنجو سردار عطاللہ مینگل کو قریب سے جانتا ہوں لیکن زندگی کے آخری دنوں میں عاصمہ جہانگیر کے ساتھ انسانی حقوق کے کمیشن میں کام کرتے ہوئے مجھے نواب اکبر خان بگٹی سے بات کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے کہا کہ نواب اکبر خان بگٹی بلوچستان کے حقوق سے دستبردار نہیں ہوئے تو انہیں شہید کیا گیا۔ بلوچستان کے مسئلے کا آج تک سیاسی حل تلاش نہیں کیا گیا۔ جس طرح نواب اکبر خان بگٹی نے عوام کے حقوق کے لئے جدوجہد کر کے اپنی جان قربان کی ہمیں بھی چاہئے کہ ہم انکے نقش قدم پر چل کر کسی بھی قربانی سے دریغ نا کریں۔
پروفیسر منظور بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج میں ایک ایسے موقع پر بات کر رہا ہوں جب بلوچستان کا ایک عظیم رزمیہ وقوع پزیر ہوا۔ وہ ایک بہت بڑا ہیرو ہے اور مجھ نا چیز میں وہ صفت پائی ہی نہیں جاتی کہ اس عظیم رزمیے کو اس عظیم ہیرو کو ان کے گمنام جان نثارون کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے کچھ الفاظ کہہ سکوں یہ اتنا عظیم رزمیہ تھا جسے لکھنے کے لئے یا تو ٹالسٹائی کا قلم چاہیے یاتو بیان کرنے کے لئے شیرزاد جیسے داستان گو کی ضرورت ہے یا پھر اسے شاعری میں بیان کرنے کے لئے میر انیس جیسے شاعر کی ضرورت ہے یا پھر ایک منٹو کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جب نواب صاحب کو شہید کیا گیا تو انہیں صندوق میں تالے لگا کر بند کیا گیا یہ اس طاقت کی کمزوری کی علامت ہے جو ایک لاش سے بھی خوف زدہ ہو چکا ہے آج مشرف سسک سسک کر مر رہاہے اس کو کوئی نہیں جانتا اج شہید نواب اکبر خان بگٹی طمطراق سے بلکہ اس سے زیادہ طمطراق سے ایک نئی زندگی جی رہے ہیں اس کے چاہنے والے کروڑوں میں ہیں اور اس سے محبت کرنے والے کروڑوں میں ہیں اس سے عقیدت رکھنے والے کروڑوں میں ہیں آج نواب اکبر خان بگٹی مر کر بھی جی رہے ہیں اور مشرف جی کر بھی مر رہے ہیں۔
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ڈپٹی آرگنائزر رشید کریم بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نواب اکبر خان بگٹی بلوچستان کے سائل وسائل کے تحفظ کا نعرہ لگاتے ہوئے ایک سال تک کئی بار وفاقی حکومت کے نمائندوں سے مذاکرات کئے جو ناکام ہوئے۔ جس کے بعد انہوں نے مزاحمت کی راہ اختیار کرتے ہوئے پہاڑوں کا رخ کیا اور پھر کبھی نا لوٹے۔ نواب اکبر خان بگٹی کہتے تھے کہ وہ ساحل وسائل حق حاکمیت کا مطالبہ چھوڈ دیں تو سب ٹھیک ہو جائے
انہوں نے کہا کہ نواب اکبر خان بگٹی نے مصالحت کا رستہ اختیار نہیں کیا نا اپنے موقف سے پیچھے ہٹے۔ تاریخ میں 80 سالہ کسی شخص نے شائد مزاحمت کی ہو ۔ انہوں نے کہا کہ نواب اکبر خان بگٹی نے کبھی اپنے نظریے ، شناخت پر مصلحت اختیار نہیں کی انہوں بلوچ نوجوانوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ انکے نقش قدم پر چل کر قومی بقا کے لئے جدوجہد میں شامل ہو جائیں.