کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو آج 4274 دن مکمل ہوگئے۔ خضدار سے بیبرگ بلوچ، ثناء بلوچ، نور احمد بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے بلوچ جبری گمشدگی کے شکار اسیران کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کا اظہار کیا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ بلوچ قومی سوال ایک تاریخی اور حل طلب مسئلہ ہے اور بلوچ لاپتہ فرزندوں کا مسئلہ بھی اس سوال سے جڑی ہوئی ہے۔ بلوچ قوم کی زندگی اس ریاست نے اجیرن کردی ہے کیوںکہ بلوچ قوم نے اس جبری قبضے کیخلاف پرامن جدوجہد کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ بلوچ فرزندوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ بھی اسی دن سے شروع ہوا جب پاکستانی ریاست نے فوجی جارحیت کرکے ہزاروں بلوچ فرزندون کو شہید اور لاپتہ کردیا۔ موجودہ صورتحال 2000 سے تاحال جاری ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہزاروں بلوچ کوہلو کاہان، ڈیرہ بگٹی، مکران، مشکے، آواران، جھاو کے علاقوں میں وحشت ناک بمباری کی وجہ سے اپنے گھر بار، کھیت کھلیان چھوڑنے پر مجبور ہوگئے جو اب سندھ اور دیگر علاقوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے پاکستان سپریم کورٹ سے لیکر ہر فورم پر آواز اٹھائی مگر کہیں سے بھی ان کو انصاف کی شنوائی نہیں ہوئی۔ اس عظیم انسانی المیے پر پاکستان کی نام نہاد آزاد میڈیا، پاکستان کی نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں اور پاکستانی سول سوسائٹی، نام نہاد ترقی پسند دانشوران کے ساتھ ساتھ بلوچ پارلیمنٹ پرست پارٹیاں بھی برابر کے شریک ہیں۔