ویٹیکن نے کل دو جنوری سے فلسطین کو باقاعدہ ایک ریاست کے طور پر تسیلم کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں فریقین کے مابین گزشتہ چھ برسوں سے مذاکرات جاری تھے۔
کیتھولک مسیحیوں کے مرکز ویٹیکن کی جانب سے جاری بیان کے مطابق گزشتہ برس جون کے آخر میں فلسطین اور ویٹیکن کی مابین طے پانے والے معاہدے پر آج سے عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔ اس بیان میں مزید بتایا گیا کہ اس سلسلے میں تمام تر شرائط پوری ہو گئی ہیں۔ اس کے بعد سے ویٹیکن کی دستاویزات میں فلسطین کو ایک انتظامیہ کی بجائے ایک ملک کے طور لکھا جائے گا۔ اس بیان کے مطابق ’’یہ خطے کی کشیدہ صورتحال کو پر امن مذاکرات کے ذریعےحل کرنے کی خواہش کے اعادہ بھی ہے‘‘۔
ڈیڑھ برس قبل پوپ فرانسس کے مقدس سرزمین کہلانے والے اس خطے کے دورے کے دوران بھی ویٹیکن نے سفری دستاویزات پر ’’Stato di Palestina ‘‘ یعنی فلسطینی ریاست درج کیا تھا۔ گزشتہ برس مئی میں پاپائے روم نے روم میں فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر پوپ نے عباس کو ’’ امن کا فرشتہ ‘‘ قراردیا تھا۔ ویٹیکن کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پوپ فرانسس نے صدر محمود عباس کو امن کا فرشتہ فلسطین اور اسرائیل کے مابین ہم آہنگی بڑھانے کے لیے کہا تھا اور ان کا مقصد اسرائیل کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں تھا۔ تاہم اسرائیل کی جانب سے اس پر سخت ردعمل سامنے آیا تھا۔
ویٹیکن اور فلسطینی ریاست کے مابین طے پانے والا معاہدہ بتیس نکات پر مشتمل ہے اور یہ چھ سال تک جاری رہنے والے مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ اس میں کلیسا اور ان علاقوں کے باہمی تعلقات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، جو فلسطین کے زیر انتظام ہیں۔ اس معاہدے پر گزشتہ برس چھبیس جون کو فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی اور ویٹیکن کے ان کے ہم منصب پاؤل رچرڈ نے دستخط کیے تھے۔ فلسطین کو اب تک دنیا کے ایک سو تیس سے زائد ممالک ایک خود مختار ریاست کے طور پر تسیلم کر چکے ہیں۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس نئی پیش رفت پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے سے امن کے لیے کسی اتفاق رائے تک پہنچنا مشکل ہو گیا ہے اور فریقین کے مابین براہ راست امن بات چیت کے امکانات بھی معدوم ہو گئے ہیں۔ ’’اسرائیل یہ یکطرفہ فیصلہ تسلیم نہیں کرے گا‘‘۔ اسرائیل اور ویٹیکن کے مابین گزشتہ بیس برسوں سے مذاکرات جاری ہیں تاہم ابھی تک کوئی بنیادی معاہدے طے نہیں پایا ہے۔