Homeآرٹیکلزآزادی اور انحصار تحریر: محمد انور بلوچ ایڈوکیٹ

آزادی اور انحصار تحریر: محمد انور بلوچ ایڈوکیٹ

قومی تحریک کی کامیابی اور آزادی حاصل کرنے کیلئے نیشنلزم کا ہونا ضروری ہے نیشنلزم کا بنیاد اور اْسکی اصولوں کے مطابق کسی ایک اصول کی بنیاد پر تحریک کی حکمت عملی کا ہونا جو تمام تنظیم ،پارٹیوں اور قوم کے دیگر سماجی اداروں کیلئے قابل قبول ہو، تاکہ قوم ایک پلیٹ فارم پر متحد رہے کیونکہ متحدہ تحریک کی قابل اعتماد حد ہوتی ہے وہ حد نیشنلزم ہے بصورت دیگر تمام تنظیم ،پارٹیاں اور سماجی ادارے اپنی اپنی شناخت کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے رہتے ہیں
اَئے ہم اپنے مضمون کو اْوپر پیراگراف میں سمیٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔کیا ہم یہ محسوس نہیں کرتے کہ اگر ایک خاندان کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو اْس کی مدد کئے بغیر رہا نہیں جا سکتا جس طرح ہر کوئی اپنے اپنے خاندان کی غم اور خوشی میں شریک ہوئے بنا رہ نہیں سکتا یقیناًاِسی طرح اَپ اپنی قومی ذمہ داری پوری کئے بغیر رہ نہیں سکتے ۔ شہید نوروز خان اور شہید اکبر خان بگٹی نے اپنے بوڑھی ہڈیوں کی قربانی کیوں دی ؟ بالکل اِسی طرح قوم کے ہر فرد پر قومی ذمہداری ہوتی ہے کہ وہ قومی مصیبت اور غم و خوشی میں شریک رہے اپنے ما در وطن اور قومی مال و مڈی کیلئے متحدہ دلچسپی کے ساتھ جدوجہد کرے اگر تنظیم اور پارٹیاں یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہماری ترقی اور کامیابی ایک دوسرے کے خاتمے میں ہیں یاکہ ایک دوسرے کی ترقی صلاحیتو ں کو روک دے گا یاکہ ایک اَدمی اپنی بقاء دوسرے کے خلاف جدوجہد کرنے میں محسوس کرتا ہے تو اِس طرح کی جدوجہد ایک دھوکہ اور بے بنیاد سوچ کی غمازی کرتا ہے ہم اور ایک مثال کے ذریعے ثابت کرنا چاہتے ہیں کیا بیج ایک پتی کو اْگانے کیلئے ہیں، نہیں بلکہ بیج ایک درخت اْگا نے کیلئے جڑیں مضبوط کرتا ہے تو پھر ہم ایک دوسرے سے کیسے الگ ہوگئے ہیں بلوچ قوم ایک بیج اوربیج سے ایک درخت کے مانند ہے ہم لوگ کیوں یہ نہیں سوچھتے کہ پتی،پھول،تنا،شاخیں اور جڑیں سبھی نے اپنی فارم کو بیج سے لے لی ہے ظاہراً درخت وجود رکھتا ہے لیکن بیج کو ہم دیکھ نہیں سکتے اس طرح قوم ہے مگر قوم پرستی کو ہم دیکھ نہیں سکتے لیکن قوم پرستی ہر ایک میں موجود ہے صرف اْسے سمجھنے کی ضرورت ہے اگر اَپ اپنے وجود کو تلاش کرینگے تو اپنے قوم پرستی کو ضرور محسوس کریں گے یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ نیشنلزم کے بغیر کسی بھی تحریک کی کامیابی ناممکن ہے اگر واقعی نیشنلزم کی بیج ہمارے پاس ہے تو پھر ہم ایک دوسرے سے الگ یاکہ ہماری مفادات کیسے مختلف ہوسکتے ہیں یاکہ پھر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو بلوچستان پر قبضہ کا حق حاصل ہے اگر ایسا نہیں ہے تو پھرچند لوگوں کے خیال میں کیوں ہم اپنے وطن پر حکمرانی کا حق نہیں رکھتے أیا ہمارا اپنا جداگانہ قومی تاریخ اور ثقافت ہمارے سرزمین کو جڑا نہیں ہے ابھی تک تو ہم لوگوں نے پاکستانی ثقافت قبول ہی نہیں کی ہے اسلیئے کہ ہمیں اپنی قوم اور عزیز وطن سے محبت اور اپنی آزادی عزیز ہے۔
آزادی کا مطلب ہم اپنی قومی تاریخ،ثقافت،معیشت اور سیاست میں رہ کر آزادی کے طور پر آزاد اور خود مختار حکمرانی کریں نہ کسی شخص سے آزادی یاکہ کسی ریاست کی غلامانہ آزادی میں اْس کی رحم و کرم پر رہیں اگر ہم اپنے قومی معاشرے کے قوانین رسم و رواج کو قبول کرنا نہیں چاہتے تو پھر کیسے ہم قابض ریاست کی جبری قوانین کو قبول کرنے کے بعد یہ محسوس کرتے کہ ہم آزاد ہیں آزادی فطری ہے ہر شخص معاشرہ اور قوم کی طرف سے محسوس کرتا ہے آزادی کیا دیتی ہے کہ ہر شخص خوشی سے اْسے قبول کر کے اپنی زندگی کو قربان کرنے کیلئے دلچسپی لیتی ہے اور اس کے ساتھ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم آزادی کیوں چاہتے ہیں اور پاکستانی حکومت کے انحصار میں نہیں چاہتے ،ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ آزادی اور انحصار میں کیا فرق ہے اور ہم پاکستان کی انحصار کو کیوں قبول نہیں کرتے اسلیئے کہ ہم اْس طرز زندگی کو برداشت کرتے ہیں جو ہمارے اَباؤاجداد نے ہمارے لئے پیدا کئے ہیں جس میں ہمارے لئے سب کچھ اچھے ہونے کا اصول ہیں جو اَباؤاجداد کی طرف سے ہمیں ورثہ میں ملا ہیں اور ہمارے اقدار کے ذریعے ابدی سچائی اور علم کی روشنی کے پیدا ہونے والے اقدار آزادی کی ہماری میکنزم ہے ہم ابدی آزادی کی بنیاد پر سماجی نظام قائم کر چکے ہیں ہمارے لیئے صرف أبائی نظام ہمارے سماجی اور قومی زندگی کی بنیاد ہو سکتی ہے لہذا ہم آزادی چاہتے ہیں لیکن کیا یہ نظام اقلیتوں کیلئے مختلف ہے کیا صرف ایک علاقے کیلئے ہے ہمارے أباؤں اجداد کی طرف سے پیدا ہونے والے سماجی اقدار اقلیتوں اور مختلف قبائلوں کیلئے کیسے مختلف ہو سکتے ہیں کیا ہم نہیں جان رہے ہیں کہ قوم کی شاخیں درخت کی مانند اپنے قومیت کی وجود کو ثابت کرنے میں تقسیم ہیں اَیاہم قومی ثقافت کو نہیں دیکھ رہے ہیں جو قوم کے ہر فرد کی زندگی میں بہہ رہاہے قوم ایک بڑے درخت کی شاخ نہیں جو ایک دوسرے سے وجود رکھتا ہو بلکہ ایک درخت جو بیج سے شکل اختیار کر چکا ہے ہم اْسدرخت کی جڑیں نہیں دیکھ سکتے مگر اْسکی وجود کو محسوس کرتے ہیں کہ وہ ایک متنوع درخت ہے اور اَس کی پھل اْس درخت سے ہی جانا جاتا ہے سب کچھ جانتے ہوئے ہم لوگوں نے جان بوجھ کر قومی خودمختاری اور قومی سیاسی مفادات(اقتداراعلی)کو نظرانداز کیا ہے ہم جانتے ہیں کہ بلوچستان کی سیاسی نظام میں کچھ فرق ہے لیکن سیاسی نظام ثقافتی نظام نہیں ہے بلکہ ثقافت کے مترادف بھی نہیں ہو سکتا ۔ثقافت افراد ،سماج اور قوم کی ترقی کیلئے راستہ دکھاتا ہے اور سیاست کی ذمہ داری افراد ،سماج اور قوم کی ترقی کیلئے ہیں تو پھرلوگ رکاوٹیں کیوں ڈالتے ہیں شاہد اسلیئے کہ وہ لوگ قومی مقاصد کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں یاکہ اْن کی ذاتی مفادات ایک دوسرے کی مخالفت میں حوصلہ افزائی کرتے ہیں اِسی وجہ سے ہمارے اتحاد کی کمی نے ہمیں پاکستان کی احترام اور پاکستان کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا ہے اسلئے پاکستان نے قبضہ جمانے کے نظام میں ہمارے اختلافات کو نظرانداز نہیں کیا ہے بدقسمتی سے ہمیں قومی کردار کی کمی ہے جس سے باَسانی بلوچستان اْس کی جھولی میں ہے اگر تمام پارٹیاں ،قومی ادارے اور قبائل قومی طرز پر متحد ہو کر پاکستان کو چیلنج کیا کرتے تو کیا پاکستان بلوچستان پر قبضہ جما سکتا تھا اگر بلوچ قوم قومی ذمہداری قبول کرتے تو کیا پاکستانی فوج گھر گھر تلاشی ،لوگوں کو اْٹھا کر شہید کرنااور گھروں کو جلا کر خواتین کی عصمت دری کر سکتے تھے ؟ حالانکہ بلوچستان ہمارے ثقافت،معیشت اور قومی سیاست کو پھیلانے کی قدرت رکھتا ہے کوہ سلیمان سے لے کر سمندر کی گہرائی اور کرمان سے لے کر شمال میں ہلمند تک بلوچ سر زمین کی سرحدیں ہے جہاں بلوچ قوم اَباد ہیں اگر ہم اپنے وطن عزیز کی فکر و حفاظت خود نہیں کریں گے تو کیا کوئی اَکر حفاظت کرے گا یا کہ مغربی ممالک اَکر آزادی کو تشت از بام کرکے ہمیں دے گا اگر ہم ابھی بھی متحد نہ ہوئے اور اپنے اپ کو قوم طور پر پیش نہ کیا تو غلامی کی زنجیریں بلوچ گلے سے اْتر نا مشکل نہیں بلکہ نا ممکن ہوگا بلکہ ہر بار جدوجہدو قربانی کے غلامی یاد دلاتی جاتی ہے اور قابض کیلئے راستہ اَسان اور کھلا ہوتا رہے گا اپنے قومی بقا کیلئے بلوچ آزادی پسند اور دیگر قوم پرستوں کو متحد ہونے کیلئے برداشت کا کڑوا زہر پیئے بغیربلوچ قومی آزادی اورریاست بلوچستان کا خواب کبھی پورا نہ ہوگا۔

Exit mobile version