واشنگٹن (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک کے مطابق ایران کے ساتھ عالمی طاقتوں کے جوہری معاہدے کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے ویانا میں ہونے والے مذاکرات میں امریکہ نے شرکت کا اعلان کیا ہے۔
2018 میں ٹرمپ انتظامیہ نے امریکہ کو نے اس معاہدے سے دستبرداری اختیار کی تھی ۔ تاہم صدر بائیڈن اس معاہدے میں واپس جانا چاہتے ہیں۔
تاہم دیگر چھ ممالک کو اس کا راستہ ڈھونڈنا ہو گا کہ صدر بائیڈن ٹرمپ کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں کو ہٹا سکیں اور ایران اپنے جوہری پروگرام کی تہہ شدہ حدود میں واپس آ جائے۔
ایران کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ معاملات کو اس وقت تک آگے نہیں بڑھائیں گے جب تک امریکہ ایران پر عائد پابندیاں نہیں ہٹاتا۔
ویانا میں جو امریکی حکام اِس اجلاس میں شرکت کریں گے وہ ایران سے ایک مختلف جگہ بیٹھیں گے اور دیگر ممالک، جن میں چین، فرانس، جرمنی، روس، اور برطانیہ شامل ہیں ان کے درمیان بات چیت کو ممکن بنائیں گے
امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پیر کے روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ معاہدہ ایک چیلنجز کو کم نہیں ہے۔ ابھی ابتدائی دن ہیں ۔اس معاہدے سے مواقع وابستہ کرنا قبل از وقت ہوگا اور یہ مذاکرات انتہائی مشکل ہوں گے۔
کچھ عالمی طاقتوں کا کہا ہے کہ ایران جوہری طاقت اس چاہتا ہے کہ وہ ایٹمی بم بنا سکے ۔اس لئے ایران ایران پر اعتبار نہیں کرتیں ۔ایران نے عالمی طاقتوں کی خدشات کی تردید کی ہے ۔
2015 میں ایران اور چھ ممالک کے درمیان ایک بڑا معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت یہ طے پایا تھا کہ ایران جوہری کارروائیوں کو روک دے گا تاکہ اس پر لگائی گئی اقتصادی پابندیاں ہٹا دی جائیں۔
مگر صدر ٹرمپ کے معاہدے سے دستبردار ہونے کے بعد ایران نے اپنی جوہری کارروائیاں دوبارہ شروع کر دی تھیں۔
اب صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ معاہدہ کا دوبارہ حصہ بننا چاہتے ہیں، دونوں فریقوں کا کہنا ہے کہ دوسرے کو پہل کرنا پڑے گی۔
نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کا ہدف یہ ہے کہ باہمی طور پر معاہدے کی پاسداری کا سٹیج بنایا جائے۔
تاہم ایرانی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ منگل کے روز ملاقات کا مقصد پابندیوں کو اٹھانے کے راستے پر بات کرنا ہے۔
ایران کے ترجمان سعید خطیبزادہ نے کہا ہے کہ یورپی اور دیگر ممالک کو امریکہ کو اپنے وعدے یاد دلانے ہوں گے۔
یورپی سفارتکاروں کو امید ہے کہ وہ مئی تک اس سلسلے میں کچھ پیش رفت کر پائیں گے۔ ایران میں جون میں صدارتی انتخابات ہونا ہیں اور سفارتکاروں کو خدشہ ہے کہ کہیں انتخابات کی وجہ سے معاملات میں مزید تاخیر نہ ہو جائے۔
یاد رہے صدر ٹرمپ کا موقف تھا کہ یہ بالکل خام خیالی ہے کہ ایک قاتلانہ حکومت صرف پرامن مقاصد کے لیے جوہری پروگرام چاہتی ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایران پر دوبارہ پابندیاں لگا دی تھیں جس کے بعد ایران نے پھر سے اپنا جوہری پروگرام شروع کر دیا تھا۔