کوئٹہ (ہمگام نیوز ) ویب ڈیسک سے بات کرتے ہوئے جلیلہ حیدر کا کہنا تھا کہ انھوں نے بھوک ہڑتال کا فیصلہ کہیں شنوائی نہ ہونے کے بعد کیا۔
’ہم نے ہر فورم استعمال کیا، ہر جگہ گئے۔ 100 جنازوں کے ساتھ بیٹھے اسی کوئٹہ شہر میں فروری کی ٹھنڈ میں۔ کوئی شنوائی نہیں ہے ہماری کیونکہ سکیورٹی ناکام ہو چکی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہزارہ برادری کی ہلاکتیں رکوانے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں لیتا۔ ’ہمارے نام پر بجٹ آتا ہے، ہماری لاشوں سے تو فائدہ ہوتا ہے۔ جنگ فائدہ مند کاروبار ہے۔ کوئی چاہتا ہی نہیں اسے ختم کریں۔ جب بھی بجٹ آنا ہوتا ہے، الیکشن آنے ہوتے ہیں، بین الاقوامی سیاست ہوتی ہے، کولیشن سپورٹ فنڈ آنا ہوتا ہے تو ہم بچارے قربانی کے بکرے ہوتے ہیں۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’کوئٹہ میں شاید اتنے دنبے ذبح نہیں ہوئے جتنے ہزارہ قتل ہوئے ہیں۔ میں اپنے بھائیوں کی زندگی کے لئے یہاں بیٹھی ہوں اور تا دم مرگ بیٹھی ہوں۔‘
جلیلہ حیدر کا کہنا تھا کہ ہزارہ برادری کی تین ہزار بیوائیں آرمی چیف سے جواب چاہتی ہیں ۔انھوں نے پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک عام شہری کی طرح کوئٹہ کا دورہ کریں تو انھیں لوگوں کی مشکلات کا احساس ہو گا۔
’قمر جاوید باجوہ صاحب وردی کے بغیر عام آدمی بن کر ایک بار کوئٹہ آئیں۔ سوچیں وہ کوئٹہ والے ہیں، سوچیں وہ پشتون ہیں، سوچیں وہ بلوچ ہیں۔ میں ان کو اس شہر کی ہر چیک پوسٹ، ہر محلے، ہر گلی کوچے میں رکشے پر لے جاؤں گی اور دکھاؤں گی یہاں کے لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے۔‘
جلیلہ حیدر کا کہنا تھا کہ آرمی چیف تین ہزار ہزارہ بیواؤں سے ملیں اور ان کے سوالوں کا جواب دیں۔
’20 سال سے جو ہم قتل ہو رہے ہیں اس کے محرکات کیا ہیں؟ اس کے پیچھے کون ہے؟ ہمیں کیوں قتل کیا جارہا ہے؟ نیشنل ایکشن پلان کہاں چلا گیا؟ نیکٹا کہاں کھڑی ہے؟ کوئٹہ سیف سٹی پروجیکٹ کا کیا ہوا؟
’یہ سب میں باجوہ صاحب سے پوچھنا چاہتی ہوں۔ وہ بھی بچوں کے باپ ہیں، اگر وہ ایک دفعہ ان بچوں کی چیخیں سنیں گے اور اگر ان کا دل پتھر کا نہیں ہے، انسان کا دل ہے تو میں یقین سے کہتی ہوں کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر یہاں آئیں گے اور ہماری ماؤں سے ملیں گے۔‘
خیال رہے کہ ہزارہ قبیلے کے افراد پر حملوں کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔