Homeآرٹیکلزپاکستانی مظالم اور بلوچ نوجوانوں کی زمہ داریاں: تحریر شولان بلوچ

پاکستانی مظالم اور بلوچ نوجوانوں کی زمہ داریاں: تحریر شولان بلوچ

ہمگام کالم : مقبوضہ بلوچستان سمیت سندھ اور خیبر پختون خواہ وطن میں گزشتہ دو دہائیوں سے انسانوں کو پاکستان کے ریاستی ایجنسیوں کی جانب سے ماورائے عدالت جبری اغوا کر کے انکی مسخ شدہ لاشیں ویرانی علاقوں میں بے گورو کفن دفن کیئے جا رہے ہیں سیاسی کارکنوں سمیت تمام طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد اس ریاستی جارحیت کا برسوں سے شکار چلے آ رہے ہیں۔ عدلیہ جس کے ہاتھ میں انصاف کا ترازو ہوتا ہے بلوچ، پشتون اور سندھیوں کے معاملے میں مکمل طور پر مجرمانہ خاموشی کا روزہ رکھے ہوئے ہیں. جب سے بلوچ قومی مزاحمت میں تیزی آتی گئی تو ریاستی ادارے جہد کاروں سے سیخ پا ہو کر اپنی ننگی جارحیت پر اتر آئے۔ اپریل 2009 کو بلوچ سیاسی لیڈران شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ، شیر محمد اور لالا منیر بلوچ کی چھ روز پرانی مسخ شدہ لاشیں مرگاپ کے مقام سے برآمد ہوئیں. جس سے بلوچ آزادی پسند سیاسی جہد میں ایک نئی جدت پیدا ہو گئی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نفرت کی ایک ایسی لہر ابھری جو تاحال بلوچ مزاحمت کی شکل میں توانا ہے جس کو سبوتاژ کرنے کیلئے ریاستی مشینری مقبوضہ بلوچستان میں مزید فعال کی گئی، ہزاروں کی تعداد میں بلوچ نوجوان طالب علموں سمیت ڈاکٹر، وکیل، ٹیچر، انجینئر، شاعر، ادیب، دانشور سب اس جارحیت کی لپیٹ میں آئے ۔ جبری طور پر گمشدہ کرنے اور بعد میں قتل کرنے کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع کیا گیا جو تاحال جاری ہے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز( جو لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے اسلام آباد سمیت کوئٹہ، کراچی میں احتجاجی کیمپ لگائے) ہوئی ہے کے مطابق ان بیس سال کے دورانیے میں تیس سے چالیس ہزار بلوچوں کو جبری طور پر اغوا کرکے لاپتہ کیا گیا ہے جس کا اظہار حکومتی عہدیدار بھی کر چکے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لاشوں کو مسخ کرکے پھینکا گیا ہے انسانی حقوق کیلئے سرگرم کارکنوں کو بھی قتل کیا جا رہا ہے جس کی واضح مثال فیصل مینگل بلوچ، شہید حاجی رزاق اور دوسرے کئی بلوچ ہیں جن کو انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے بولنے پر موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا.
بلوچستان، سندھ سمیت خیبر پختون خواہ میں حق و انصاف کی بات کرنے والے ریاستی جبر و تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں ریاست کی جانب سے خوف و دہشت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس کی وجہ سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی پر بھی بولنے والے افراد نہ ہونے کے برابر ہیں.2013 کو خضدار کے علاقے تُوتک سے اجتماعی قبروں کی دریافت اس ظلم کے سلسلے کی ایک بڑی کڑی ہے جہاں سے ایک سو ستر جبری طور پر لاپتہ کیے گئے بلوچوں کو ایک ساتھ اجتماعی قبروں میں دفنایا گیا تھا.
دوسری جانب جبری طور پر لاپتہ کیے گئے بلوچوں کے لواحقین گزشتہ کئی سالوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے سراپا احتجاج پر ہیں بلوچ ماں و بہنوں بچوں نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کوئٹہ تا اسلام آباد ایک تاریخی لانگ مارچ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا مگر نتیجہ لاپتہ افراد کی لاشوں کی شکل میں برآمد ہوئی. گزشتہ سال نومبر کو جبری طور پر لاپتہ کیے گئے طالب علم شبیر بلوچ کی بہن زرینہ اور اہلیہ سیما بلوچ سمیت کم و بیش پچیس فیملی کیمپ میں موجود ہیں اور نام نہاد پاکستانی آئین کے دائرے میں رہ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں اور بارہا حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اگر اُن کے پیارے کسی غیر قانونی کارروائی میں ملوث ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کرکے سزائیں دی جائیں مگر بجائے بازیابی یا منظر عام پر لانے لاپتہ افراد کے لواحقین کو دباؤ میں ڈالا جا رہا ہے تاکہ انھیں مختلف ریاستی ہتکھنڈوں سے دباو میں لا کر وہ اپنے پر امن احتجاج کو ختم کرنے پر مجبور ہو جائیں . اس کی واضح مثال بی ایس او کے مرکزی رہنماؤں ظریف رند بلوچ، اورنگزیب بلوچ، چنگیز بلوچ اور جیئند بلوچ کی اغوا نما گرفتاری تھی جو جبری طور پر گمشدہ کیے گئے بلوچوں کی بازیابی کیلئے بلوچ ماں بہنوں کے ساتھ ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر سخت وقت میں مردانہ وار کھڑے تھے. پاکستانی ریاست بلوچوں کے پرامن احتجاجوں کو بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے اسی لیے خوف کے ماحول کو برقرار رکھنے کیلئے لاپتہ افراد کیلئے آواز اٹھانے والوں کو بھی لاپتہ کیا جا رہا ہے.
بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ دن بدن سنگین ہوتا جا رہا ہے احتجاجی مظاہروں اور بارہا احتجاج ریکارڈ کرنے کے باوجود جبری طور مسنگ پرسنز کی فہرست طویل ہوتی جا رہی ہیں .
گزشتہ سات سالوں سے لاپتہ کیئے گئے افراد کیلئے بلوچ اسیران کے لواحقین اپنے بساط کے مطابق بے سروسامانی کے عالم میں اپنی احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں، مگر لاپتہ افراد کی بازیابی دور کی بات ہے مزید بلوچ لاپتہ کیا جا رہے ہیں۔ لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے تین دن پہلے دس افراد کو لاوارث قرار دے کر ایدھی کی رضا کاروں کے ذریعہ دشت میں خاموشی سے دفنایا گیا. جس کو بلوچ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ نے بھی بھر پور ہائی لائٹ کر دیا. بلوچ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ سمیت باہر بیٹھے دوستوں کو عالمی سطح پر منظم انداز میں بلوچ قومی مسئلے کو اجاگر کرنا چاہیے.
اب ہمیں بیٹھ کر ٹھنڈے دماغی سے سوچنا چاہیے کہ کس طرح کی حکمت عملی ترتیب دے کر بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے کو عالمی سطح پر بہروں کے کانوں تک پہنچایا جائے یقیناً کمزوریاں ہماری حکمت عملیوں میں ہیں کہ اتنا جبر ہونے کے باوجود دنیا اب تک خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہوئے ہے تو ہمیں سوچ سمجھ کر مستقبل قریب میں منصوبہ بندی کے تحت فیصلے کرنے چاہیے کیونکہ نوجوان نسل پس زنداں ہو تو قوموں کی سماجی و سیاسی ارتقاء منجمد ہو کر رہ جاتی ہے.ایسے حالات میں وطن دوست جوانوں کو ہر سطح پر تحریک کو توانائی فراہم کرکے اسے مزید اس وقت تک کیلئے متحرک رکھنا چائیے،جب تک قابض پاکستان کے غلامی سے قومی نجات فیصلہ کن موڑ میں داخل ہو کر ہم اپنے قومی آزادی کو حاصل کرلے۔

Exit mobile version