بیسویں صدی میں جو بھی اقوام دنیا کے نقشے پر ایک ریاست کے صورت میں ابھرے ان تمام اقوام میں ایک قدر مشترک تھی کہ سب میں قومیت کا احساس تھا اور سب مشترکہ تاریخ رکھتے تھے لیکن پاکستان میں غیر فطری طور پر باندھے گئے اقوام نا مشترکہ تاریخی پس منظر رکھتے ہیں نا ان کے مفادات مشترک ہیں اور نا ہی ان میں کبھی بھی ایک قوم ہونے کا احساس رہا ہے حتیٰ کے 1940 تک لفظ پاکستان تک وجود میں نہیں آیا تھا ۔پاکستان کے قیام کا فیصلہ انگریز قابضوں نے اپنے قبضے کے آخری دور میں مستقبل میں اپنے علاقائی مفادات کی تکمیل کی بجاآوری کی خاطر کیا ۔ جس طرح پاکستان کا قیام غیر فطری اور دوسرے اقوام کے استحصال پر ہوا اسی طرح پاکستان کا وجود بھی دوسرے اقوام کے استحصال پر قائم ہے ۔ بلوچ ، سندھی اور پشتون جیسے اقوام کو زبردستی اس ریاست کے ساتھ باندھنے کے بعد انہیں قابو میں رکھنے کیلئے یہاں اختیار قابض انگریز کے بنائے ہوئے پنجابی آرمی کے ہاتھ میں دے دیا گیا اور ورثے میں اسے جنگی ساز وسامان سے لیس کرکے مضبوط بنایا گیا جس سے نا صرف وہ پہلے سے غلامی کا شکار اقوام کو آسانی سے قابو کرسکے بلکہ طاقتور ہونے کی وجہ سے وہ امورِ ریاست پر اختیار دار ہوگئے ۔ پاکستان کے قیام نے اس خطے میں طاقت کے توازن پر بہت برا اثر ڈالا اپنے قیام کے اگلے ہی سال پاکستان نے کشمیر پر بھارت سے جنگ چھیڑ دی پھر اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے انہوں نے بھارت میں در اندازی اور دہشتگردی کا ایک نا رکنے والا سلسلہ شروع کردیا جس کی وجہ سے ان کے بیچ تین بڑی جنگیں ہوچکی ہیں تینوں میں شکست کھانے کے باوجود پاکستان اب تک مسلسل سرحدی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے اور اپنے فوجیوں اور بنائے ہوئے پراکسیوں کو مجاہدین کا نام دے کر بھارت روانہ کرتا رہا ہے جو ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہا ہے دوسری طرف پاکستان نے اپنے قیام کے ساتھ ہی افغانستان کو اپنا غیر فطری پانچواں صوبہ سمجھنے لگا اور اس کے معاملات میں مداخلت شروع کردی سرد جنگ کے دور میں ثور انقلاب کے بعد جب روس نے افغانستان میں پیش قدمی کی تو پاکستان کو ایک موقع مل گیا مغربی ممالک کی پشت پناہی حاصل کرنے کے بعد پاکستان نے اپنے فوج کی مدد سے مدارس کے طلباء کو ٹریننگ اور اسلحہ دیکر افغانستان بھیجنا شروع کردیا جو بالآخر طالبان کے شکل میں افغانستان پر قابض ہوگئے ۔ اس طرح پاکستان ایک پراکسی جنگ کے ذریعے افغانستان میں بھی بدترین مداخلت کا مرتکب ہوا اور ہمیشہ کیلئے افغانستان کا امن تباہ کردیا ۔ گو کہ پاکستان اور ایران بلوچ مسئلہ کے اوپر مشترک سوچ رکھتے ہیں اور ان میں اتحاد بھی ہے لیکن اسلامی انقلاب کے بعد شیعہ حکومت بننے کے بعد پاکستان اور ایران کے تعلقات خراب رہے ۔ مسلم دنیا کے بے تاج بادشاہ ہونے کے دعویدار سعودی حکمرانوں نے پاکستان کی مدد سے کئی شیعہ مخالف پراکسی تنظیمیں بناکر شیعہ رجیم کے خلاف ایک جنگ شروع کردی یعنی پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ہی اپنے تمام ہمسایہ ممالک کیلئے ایک خطرہ اور مسئلہ بناہوا ہے ۔ پاکستان کے در اندازی اور دنیا کے امن کو تباہ کرنے کا سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ اپنائے ہمسائے ممالک کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کیلئے خطرہ بن گیا ۔ افغانستان میں مداخلت کیلئے بنائے پراکسی گروپ جیسے کے طالبان ، کشمیر میں مداخلت کیلئے بنائے گئے شدت پسند گروپ جیسے کہ جیشِ محمد وغیرہ اور ایران کے مخالف میں بنائے گئے انٹی شیعہ شدت پسند گروہ جیسے کے لشکر جھنگوی سب پاکستانی فوج کا تزویراتی گہرائی بن گئے ، وہ فوج سے بے تحاشہ پیسہ اور اسلحہ حاصل کرنے کے بعد اس حد تک طاقتور ہوگئے ہیں کہ اس خطے میں ایک غیر اعلانیہ الگ ریاست چلا رہے ہیں اور انہیں پاکستانی فوج کے مکمل خفیہ پشت پناہی بھی حاصل ۔ یہ گروہ نا صرف اپنے ارگرد کے ممالک بلکہ پوری دنیا میں دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث ہیں ۔ حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ میں بھی یہ ظاھر کیا گیا ہے کہ مغربی ممالک اور امریکہ میں ہونے والے دہشت گردی کے تمام واقعات کے تانے بانے جاکر پاکستان سے ہی ملتے ہیں ۔ پاکستان اس خطے میں ایک نا سور کے صورت میں سامنے آیا اور وقت کے ساتھ ساتھ ناسور ٹھیک نہیں بلکہ مزید بدتر ہوجاتا ہے اس لیئے پاکستان کا وجود اب خطرے کی ایک علامت بن چکا ہے ۔ بھارت میں مودی سرکار آنے کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر کنٹرول لائن کی شدید مخالفت شروع کردی جس کے بعد سے ابتک ایل او سی پر ایک دوسرے پر چھوٹے چھوٹے حملوں کا ایک سلسلہ شروع ہوچکا ہے ، معاملات کو اس حد تک پہنچانے کی سب بڑی وجہ پاکستانی حکام کا کشمیری حریت رہنماوں سے ملاقات کو بتایا جاتا ہے جبکہ اس پر بھارت نے بھی میڈیا اور سفارتی سطح پر احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پاکستان کشمیری حریت رہنماوں سے مل سکتا ہے تو پھر ہم بھی بلوچ رہنماوں سے ملیں گے ۔ماضی میں پاکستان اپنے دراندازی پر پردہ ڈالنے اور اسے جواز دینے کیلئے ہمیشہ بھارت پر الزام لگاتا آیا ہے کہ وہ بلوچ آزادی پسند مسلح گروہوں کی مدد کررہا ہے جبکہ پاکستان اور بلوچ آزادی پسند رہنما دونوں اس الزام کو مسترد کرچکے ہیں ، اس مدعے پر پاکستان نے شرم الشیخ میں منموہن کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں باقاعدہ طور پر بلوچستان کا مسئلہ ایجنڈے میں شامل بھی کروایا تھا لیکن بارہا کئی فورموں پر بھارتی حکام کا بلوچستان میں مداخلت پر پاکستان سے ثبوت مانگنے کے باوجود پاکستان آج تک نا کوئی ثبوت پیش کرسکا ہے اور نا ہی کبھی اپنے الزامات کو ثابت کرسکا ہے ، لیکن اب بھارت میں حکمران جماعت بھارتی جنتا پارٹی کے سینئر رہنماسبرمنیو سوامی پاکستان کو اس بات کی دھمکی دے چکا ہے کہ وہ بلوچ آزادی پسند قائدین سے رابطہ شروع کریں گے اور پہلی بار بھارت نے اعلیٰ سطح پر بلوچوں کو ایک الگ قوم کہہ کر مخاطب ہوئے ہیں اور بلوچوں پر پاکستانی قبضہ کا تذکرہ بھی کیا ہے ۔اس سب کے باوجود عملی طور پر اگر دیکھا جائے تو بھارت اب تک کسی بھی فورم پر بلوچوں کی حمایت کرتے ہوئے نظر نہیں آتا ۔ پاکستان اور بھارت کی سرحدی کشیدگی ایک طرف اور دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو افغان حکومت بھی پاکستان سے سخت نالاں ہے اور افغانستان میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کررہا ہے حال ہی میں پاکستانی فوج نے افغان علاقوں پر راکٹ باری کی ہے جس کی جواب میں افغان فوج بھی پاکستانی زیر قبضہ علاقوں پر راکٹ برسا رہا ہے ۔ اسی طرح تیسر طرف ایرانی فوج کے ایک حالیہ حملے میں پاکستانی ایف سی کا ایک صوبیدار ہلاک ہوا تھا یعنی پاکستان ایک وقت میں اپنے ارگرد کے تمام ممالک کیلئے خطرہ بنا ہوا ہے اور پاکستان کے اندر پنپنے والے دہشگرد پوری دنیا میں دہشتگردی کے واقعات کے منصوبہ بندی میں ملوث ہیں ۔ پاکستان وقت کے ساتھ ساتھ نا صرف اس خطے بلکہ پورے دنیا کیلئے ایک شدید تر خطرہ بنتے ہوئے ابھر رہا ہے ، اب وقت آگیا ہے کہ پوری دنیا پاکستان کے ان تو سیع پسندانہ اور دہشت گردانہ عزائم کا قلع قمع کرنے کیلئے کوئی سنجیدہ حکمت عملی اختیار کرے ورنہ پاکستان کے اندر پنپنے والے یہ دہشگرد گروہ کسی بھی وقت پورے خطے کے امن کو داعش کی طرح تہہ و بالا کرسکتے ہیں ۔ اب وقت کی ضرورت یہی ہے کہ بھارت سمیت تمام مہذب اقوام بیانات سے بڑھ کر بلوچوں کی مدد کو سامنے آئیں ۔ جس طرح عالمی حمایت پاکر کرد مشرقِ وسطیٰ میں ایک مضبوط سیکیولر فورس بن کر ابھرے اور دہشگردوں کے سامنے ایک دیوار بن گئے اسی طر ح بلوچوں کی صورت میں اس خطے میں بھی ایک مضبوط سیکیولر قوت ابھر سکتی ہے ۔ بلوچ چھ دہائیوں سے زائد عرصے سے اپنے آزادی کیلئے جدوجہد کررہے ہیں اور ایک سیکیولر بلوچ ریاست کے طلبگار ہیں ۔ اگر بھارت سمیت باقی مہذب ممالک بلوچوں کی سیاسی و سفارتی حمایت کریں تو بلوچوں میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اس خطے میں ایک مضبوط سیکیولر طاقت کی صورت میں ابھریں اور پاکستان کے اس دراندازی اور عالمی دہشتگردی کے سامنے ایک دیوار بن جائیں ۔ ایک مضبوط آزاد سیکیولر بلوچستان اس خطے میں امن کو یقینی بناسکتا ہے ۔