ھمگام اداریہ،
انگریزی قبضے ہی کے دوران بلوچ قومی وحدت کے آدھے حصے پر ایرانی گجرشاہی کی فوجی جارحیت اور ناجائز قبضہ کے بعد نہ صرف شاہی حکمرانوں نے بلکن خمینی کی نام نہاد اسلامی جمہوری انقلاب نے ظلم کے وہ کون سے داستان ہے جسے پارسی ملا رجیم نے رقم نہیں کیاْ؟ بنیادی قومی حقوق کی بازیابی کیلئے مزاحمت کرنے کی گناہ پربلوچ قومی رہنماوں کو پھانسی پرچڑانا، بلوچ کی قومی اور تاریخی حیثیت کومسخ کرنا، بلوچ کلچر و زبان اور ملکیت کی آزادی کو ختم کرنا، بلوچ قوم پر سیاسی اور اقتصادی پابندیاں عائد کرنا، سماجی انصاف کی حصول کو جوئے شیر لانے کے مترادف کرنا، بلوچ قومی جغرافیہ کے حصوں کو کاٹ کر ایران کے دوسرے حصوں کے ساتھ ملانا، بلوچ زیرزمین معادنی وسائل کی لوٹ مار جیسے نوآبادیاتی سلوک نے بلوچ عوام کے زھنوں میں یہ حقیقت رجسٹرڈ کیا ہے کہ ایران کی نام نہاد فیڈرل اسٹرکچر میں بلوچ وبلوچستان کی حیثیت ایک مفتوحہ غلام کی ہے۔
ایران نے بلوچستان پر قبضہ کرنے کے بعد نہ صرف بلوچستان کئی علاقے بلوچستان سے کاٹ الگ الگ شہر بنائے یا دیگر صوبوں میں شامل کر دیا بلکہ ایرانی زیر قبضہ بلوچستان کئی شہروں کے نام بھی تبدیل کرکے اپنے حساب سے رکھے جبکہ جبر تاحال جاری ہے اور اب ایران بلوچستان کو مزید چار حصوں تقسیم کرنا چاہتا ہے تاکہ بلوچستان کا نام و نشان مٹ جائے ـ
زیرزمین ’آجوئی بلوچستان‘ پارٹی کے مطابق ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں امتیازی سلوک کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہم اس دعوے کو ثابت کر سکتے ہیں کہ قابض ایران نے مقبوضہ بلوچستان میں بلوچ عوام کو جس بے دردی سے ظلم و ستم کے شکنجے میں جھکڑا ہواہے جس کا ایران کے دوسرے مقامات سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ 2022کے آغاز سے لے کر اب تک قابض اسلامی جمہوریہ ایران نے کم از کم 471 بلوچوں کو مختلف طریقوں سے براہ راست قتل کر چکے ہیں۔ بلوچ گلزمیں کے سینے پر کینچھے گئے سرحد پرلاکھوں بلوچ مزدور جو ڈیزل کشی کے پیشے سے منسلک ہیں ان میں سے 105 زیادہ بلوچ شہری گجر کی بلا وجہ فانرنگ سے شھید ہو چکے ہیں۔ ملا رجیم نے 78 بلوچ شھریوں کو ماورائے عدالت انکاونٹر میں شھید کیا گیا ہے۔ 136 بلوچ شھری کنگرو کورٹ کے زریعے پھانسی دئے گئے ہیں، 34 کمسن بلوچ بچے ہوٹگوں میں ڈوب کر موت کے منہ چلے گئے ہیں۔ 30 ستمبر کی خونی جمعہ کے روز 101 بلوچ ایک ہی وار میں شھید کیا گیا، اس دو مہیںوں مزید 48 بلوچ پرامن مظاہروں کے دوران شھید کیا گیا۔ دستیاب اعداد و شمار مکمل اور درست نہیں ہیں لیکن بلوچستان میں ہونے والی ہلاکتوں کی اصل تعداد اس سے زیادہ ہے۔
خمینی انقلاب کا رجیم گزشتہ 43 سالوں سے فقط پرشئن کلچر کو دوسرے اقوام پر مسلط کرنےاور پرشئن ڈومیشن کو یقینی بنانے کام کرتا آرہا ہے۔ ایرانی ریاست کی فطری ساخت فقط پرشئن ڈومنیشن پراستوار ہے جہاں حمکرانی کے معاملے پر پرشئن کے ساتھ دوسرے اقوام کی برابری کا تصور ممکن نہیں۔ گو کہ دو ایک ایسے بلوچ پارٹیاں ہیں جو فڈرل حل کی بات کرتے ہیں لیکن پارسی اسپیکنگ والے اپنے جلسوں میں انکو اجازت نہیں دیتے کہ وہ بلوچستان کے جھنڈے بلند کریں۔ یہ بلوچ پارٹیاں جو فیڈرل حل کے دائی ہیں، وہ ان پارسیوں سے، جو ابھی تک اقتدار سے باہر ہیں، بلوچستان کی برابرحیثیت کو منوانے کی قابل تک نہیں ہیں۔ پرشئن غالب قوت، چاہے اقتدار پر ہو یا باہر، چھوٹے اقوام کے ساتھ برابری کی حل کو قبول نہیں کرے گا۔ بلوچ کی نجاد حل فقط ایک متحدہ آزاد بلوچستان میں پوشیدہ ہے۔