پشتونوں کے علیحدہ صوبے کا مطالبہ اور بلوچوں کا موقف ( ہمگام اداریہ) پاکستان کے زیر قبضہ موجودہ مشرقی بلوچستان کے شمالی علاقہ جات میں پشتون آباد ہیں اور یہ انکی تاریخی سرزمین ہے ، ماضی میں پشتون قوم پرست اکثر ان پر دعویٰ کرتے رہے ہیں اور پاکستان کے زیر انتظام علیحدہ پشتون صوبے اور کچھ پشتون قوم پرست ان علاقوں کی واپس افغانستان میں ضم کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں ، اسی ضمن میں حال ہی میں ایک پشتون قوم پرست جماعت نے دوبارہ مطالبہ کیا ہے کہ پشتون علاقوں کو بلوچستان سے کاٹ کر ایک الگ صوبہ بنایا جائے ، اس بابت انہوں نے مجبوری کا اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچ ہمیں مجبور کررہے ہیں کہ ہم ایک الگ صوبے کا مطالبہ کریں لیکن حقائق اسکے برعکس ہیں نا تاریخی طور پر بلوچوں نے یہ کوشش کی ہے کہ یہ پشتون علاقے بلوچستان میں شامل ہوجائیں اور نا ہی آج تک بلوچ قوم پرست ان علاقوں پر اپنا دعویٰ کرتے ہیں۔ 27 مارچ 1948 مشرقی بلوچستان پر پاکستانی قبضے کے بعد کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بلوچ اور پشتون علاقے جغرافیائی لحاظ سے ایک ہی خطے میں ہونے کے باوجود دو بالکل الگ الگ علاقے ہیں جنہیں 1970ء میں قابض پاکستان نے ون یونٹ توڑنے کے بعد ایک دوسرے میں ضم کر دیا گیا، اس انضمام کی اس وقت بھی بلوچ قوم پرستوں نے شدید مخالفت کی تھی پشتون علاقوں کو ایک بلوچستان میں جوڑ نے اور ایک غیر فطری خودساختہ صوبہ بنانے میں نا بلوچوں کی کبھی رضا شامل تھی اور نا ہی یہ کبھی بلوچوں کی خواہش رہی ہے، اس انضمام کا مقصد قومیت کے حساب سے غیر مساوی تقسیم کرتے ہوئے نئے صوبے بنانا تھا تاکہ پنجاب کی بالادستی قائم ہو اور دوسرے اقوام ایک انتظام میں رہ کر اتحاد پیدا نا کرسکیں اور پاکستانی قبضہ تقویت پاتا رہے ، اسی تناظر میں کئی بلوچ علاقوں جیسے کے ڈیرہ غازی خان اور جیکب آباد کو پنجاب اور سندھ میں ضم کردیا گیا تھا ۔بلوچ جہاں پاکستان کے وجود کو بلوچستان پر قبضہ سمجھتے ہیں تو ان تقاسیم کو تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ موجودہ بلوچستان میں موجود پشتون علاقے 1879ء سے پہلے افغانستان کا حصہ تھے ۔ دوسری اینگلو افغان جنگ میں افغانستان کو مغلوب کرنے کے بعد انگریزوں نے ان علاقوں کو ایک جبری معاہدے گنڈمک معاہدے کے تحت براہ راست اپنی عملداری میں شامل کر لیا۔ گنڈمک معاہدہ 26 مئی 1879 کو کابل سے متصل ایک علاقے گنڈمک کے علاقے میں وقوع پذیر ہوا ۔ یہ معاہدہ افغانستان کے بادشاہ خان محمد یعقوب خان اور برطانوی حکومت کے نمائیندے سر پیئر لوئس کے بیچ طے پائی جس کے تحت ان علاقہ جات کو انہوں نے برٹش افغانستان کی بجائے برٹش بلوچستان کا نام دے دیا بعد ازاں برطانوی راج نے خان آف قلات سے مختلف معاہدات کے ذریعے کوئٹہ سمیت چاغی ، نوشکی ، ڈیرہ بگٹی، کوہلو ، سبی ، بولان اور نصیر آباد کو لیز پر حاصل کرکے انہیں برٹش بلوچستان میں عارضی طور پر شامل کردیا ۔ 11 اگست 1947 کے مذاکرات و معاہدے میں جب برطانیہ نے بلوچستان کی آزادی تسلیم کی تھی تو اسکے ساتھ یہ بھی طے پایا تھا کہ بلوچستان کی 1839 کی حیثیت بحال ہوتی ہے یعنی لیز کے تمام معاہدات منسوخ ہوتے ہیں اور یہ تمام بلوچ علاقے ریاست قلات (بلوچستان ) میں شامل ہوتے ہیں اور قانونی طور پر برٹش بلوچستان میں موجود پشتون علاقے بلوچستان کا حصہ نہیں تھے اور نا ہی بلوچوں نے ان پر دعویٰ کیا تھا ، اصولاً تو انہیں افغانستان میں واپس ضم ہوجانا چاہئے تھا لیکن غیر فطری ڈیورنڈ لائن کی وجہ سے یہ ممکن ناہوسکا اور بعد میں پاکستانی قبضے کے بعد نا صرف ان پشتون علاقوں بلکہ مستجار بلوچ علاقوں کو ایک جبری اور نام نہاد کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے ریفرنڈم میں پاکستان میں شامل کرلیاگیا ۔ یہ صورتحال پاکستانی قبضے کے بعد بھی جاری رہی مغربی پاکستان کا ون یونٹ قائم ہوا تو بلوچ علاقوں کو قلات ڈویڑن اور پشتون علاقوں کو کوئٹہ ڈویڑن کا نام دیا گیا ون یونٹ ٹوٹا تو دونوں ڈویڑنوں کو ملا کر بلوچستان کے نام سے نیا صوبہ بنادیا گیا۔ یوں تو ان علاقوں پر بلوچوں اور پشتونوں کے بیچ ناکوئی اختلاف ہے اور نا ہی کوئی فطری تضاد موجود ہے لیکن پاکستان کے پیدا گیر کچھ پارلیمانی نام نہاد بلوچ قوم پرست اور کچھ پشتون قوم پرست جماعتیں اپنے ووٹ بینک اور قابض ریاست کے پارلیمنٹ میں سیٹوں کی بڑھوتری کیلئے اپنے مفادات کے تحت انتشار اور فسادات پیدا کرتے رہتے ہیں ۔ بلوچوں کی حقیقی نمائیندے آزادی پسند بلوچ قائدین کا موقف اس ضمن میں واضح اور دو ٹوک رہا ہے ۔ انکے مطابق موجودہ بلوچستان کے کھینچے گئے سیم و سر قابض کی طرف سے جبری طور پر کھینچے گئے ہیں بلوچوں کا پشتون علاقوں پر کوئی دعویٰ نہیں ۔آزاد بلوچستان کے نقشے میں پشتون علاقے شامل نہیں ۔ حال ہی میں بلوچ آزادی پسند رہنما حیربیار مری کا موقف بھی ایک انٹرویو کی صورت میں سامنے آیا تھا جس میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جب بلوچستان آزاد ہوگا تو پشتونوں کو یہ مکمل حق حاصل رہے گا کہ وہ بلوچستان کی آزادی کی صورت میں اپنے تاریخی علاقہ جات پر اپنی عملداری قائم کرتے ہوئے ایک الگ ریاست بنائیں یا افغانستان کے ساتھ شامل ہوجائیں یا پھر پاکستان کے تسلط میں بدستور رہیں بلوچ اس میں دخل اندازی نہیں کریں گے اگر بلوچ و پشتون متصل علاقوں کو قومیت کے بنیاد پر تقسیم کا وقت آیا تو یہ مکمل گفت و شنید اور باہمی رضامندی سے طے ہوگا ، اگر پشتون آزاد بلوچستان کا حصہ بننا چاہیں بھی تو انہیں خوش آمدید کہا جائیگا ۔گو کہ اس دوران ایک اور بلوچ آزادی پسند لیڈر ڈاکٹر اللہ نظر کی طرف سے پشتو ن قوم پرست جماعت پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور اسکے قائد محمود خان کو بلوچوں کا قاتل قرار دینے کا اشتعال انگیز موقف ٹوئٹر پر آیا تھا لیکن اس بابت آزادی پسند لیڈر حیربیار مری کے قریبی حلقوں کی جانب سے یہ موقف بھی سامنے آیا کہ یہ ڈاکٹر اللہ نظر کی ذاتی رائے ہے بلوچ قوم کا مافی الضمیر یا پالیسی نہیں ۔ بلوچ قوم پشتونوں کی آبائی سر زمین پر حق ملکیت اور جدا گانہ شناخت کا احترام کرتے ہیں اور انکے اپنے علاقوں پر پشتون ملکیت کے دعووں کو تسلیم کرتے ہیں ۔ اگر پشتون ایک الگ صوبہ بنانا چاہتے ہیں تو حقیقی بلوچ آزادی پسند قیادت انکے سامنے کبھی رکاوٹ نہیں بنے گی بلکہ انکی حمایت کرے گی لیکن یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ پشتون گنڈمک معاہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے صوبے کے بجائے نئے ملک یاا فغانستان میں ضم ہونے کا مطالبہ کریں اور جدوجہد کریں ۔ اسی طرح پشتونوں کو بھی بلوچوں کی تحریک آزادی میں رکاوٹ بننے کے بجائے اسکی حمایت کرنی چاہئے اور ہر ممکن مدد کرنی چاہئے ۔ اسی ضمن میں قابض پاکستان اور کچھ جعلی قوم پرست جو تنازعات پیدا کرنا چاہتے ہیں انکا حقائق سے کوئی تعلق نہیں اسلئے ان سازشوں کا بلوچوں اور پشتونوں کو ملکر مقابلہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کا معاون بننا چاہئے۔