کراچی (ھمگام رپورٹ ) 9/11 کے بعد حالیہ اوقات میں وار اینڈ ٹیرر کے نام پر عالمی طاقتوں کی مفادات کی جنگ براعظموں سے گزرتا ہوا مختلف ممالک کی سرحدات کو عبور کرکے ایک دوسری جگہ پر پہنچا دی گئی ۔ ان قوموں نے اپنی قومی مفادات کی جنگ کو اپنے ملک سے اسلیئے باہر رکھ کر دور رکھا تاکہ جنگ کہ تباہیوں اور ہولناکیوں سے ان کے اپنے ممالک اور اقوام کی بنیادی انفراسٹکچر معمولات زندگی متاثر یا خراب نہ ہو ،انھوں نے اپنے قومی مفادات کی اس جنگ کو گھسیٹ کر امریکہ سے یمن، عراق ،افغانستان و پاکستان تک پہنچادیا ۔جس کا اینڈ ہونا ابھی تک باقی ہے۔پاکستان میں پنجابی فوج اور آئی ایس آئی نے اس جنگ سے حاصل شدہ مالی ، سیاسی و عسکری مفادات کو پنجاب کیلئے سمیٹنا شروع کیا،جبکہ نقصانات کو اپنے قوم سے دور رکھ کر پشتون وطن میں اس جنگ کو دھکیلتا رہا ، جو کہ اب تک اپنی شدت سے جاری ہے ۔ڈبل ایجنٹ پاکستان آرمی و آئی ایس آئی نے ایسا اس لیئے کیا تاکہ عالمی طاقتوں سے وار اینڈ ٹیرر کے نام پر کرایہ کے مد میں ڈالر بھی بٹورتا رہے اور دوسری طرف اپنے اسٹریٹجک ایسٹ مزہبی افغان طالبان جہادیوں ،حقانی نیٹ ورک وغیرہ کو درپردہ مسلسل ریاستی سطح کی کمک جاری رکھی ہوئی یے۔آئی ایس آئی کی وار اینڈ ٹیرر کی اس سازشی میدان میں شطرنج کے دانوں کو اس ترتیب سے جنگی بساط کو بچادی گئی تاکہ پنجاب و پنجابی اس جنگ کے نقصانات سے کسی صورت بھی متاثر نہ ہو ۔ڈالر وصولی بھی ہوتا رہے۔ اس ڈالر بازی نے پوری ریاست پاکستان اور اس کے لاء اینڈ انفورسمنٹ اداروں ،جانبدار میڈیا کی مجرمانہ کردار اور ان کے اعلی اختیارداروں کو اس حد تک اندھا بنادیا۔کہ آخر کار وہ مظلوم ومحکوم پشتون قوم کے مسلح،غیرمسلح،بچے وعورتیں،بزرگ مشران،خواتین ونوجوانوں کو اندھا دھند مارنا پکڑنا شروع کیا۔شہروں میں ہزاروں کے حساب سے پشتون نوجوانوں کو جبری طور پر اغوا کیا۔ہزاروں کے حساب سے ان کو پاکستانی فوج کی کالی کوٹھریوں میں آج تک انسانیت سوز سخت سے سخت ترین سزائیں دی جارہی ہیں۔حتکہ اس دوران اکثر کی اموات ہوگئی ہیں۔اور ان کے پسماندگان اے خاندان ان کی رہائی کی آس لگائے بیھٹے ہوئے ہیں۔ پاکستانی پنجابی فوج کی اس بربریت میں اس کے تمام ادارے ، مزہبی پارلیمانی جماعتیں ،اور دو نمبر قوم پرستی کے نام پر پیٹ پرست پاکستانی پارلیمانی پارٹیاں قابض ریاست کے جرم میں برابر کے شریک وشامل ہیں۔ جو کہ انھوں نے عوام سے دی ہوئی عزت و طاقت کو ریاست کے مجرمانہ کردار کو دیکھ مجرمانہ خاموشی میں عافیت جانا ہیں ۔ ایسا اسلیئے انھوں نے کیا ہو گا تاکہ ان کے سیاسی آواز عوامی نہ بنے جو آگے ریاست کے کام اپنے کام میں خلل نہ پڑے۔ یا عام عوام میں شعور پیدا ہوکر کئی وہ سڑکوں پر نکل نہ پڑے۔جس سے ریاست کی عالمی سطح پر جگ ہنسائی نہ ہو۔ بالکل عین اسی طرح جنگ میں روگ اسٹیٹ پاکستان کے اداروں کےاعلی اختیارداروں نے اس اندھیر نگری میں پشتون نوجوانوں کو قابض پاکستانی پولیس کے اعلی افسر راو انور پنجابی کے ہاتھوں ماورائے عدالت و قانون پشتون نوجوان شہید نقیب الللہ مسعود کو بہیمانہ طریقے سے گرفتار کرکے ہتکھڑی میں جھکڑے ہوئے ان کو قتل کیا۔شروع میں تو اس مجرم کو کسی نے پوچھنے کی جرات نہ کی۔لیکن بعد میں پشتون نوجوان پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم پر متحد ہوکر ریاست کے اس بربریت پر سرا پا عوامی احتجاج کو منظم کیئے۔اس دوران انھوں نے مختلف شہروں میں عوامی آگاہی کیلئے کامیاب جلسے منعقد کیئے۔ریاست نے جب اس منظم عوامی لہر کو دیکھا تو مزید نقصان و خفت اور پوری پشتون قوم کی ریاست سے بغاوت کے خوف سے بچنے کیلئے راو انور کو اپنے عدالت میں پیش کردیا۔تاکہ اس پشتون عوامی تحریک کو مزید آگے بڑھنے سے روکا جائے۔انھوں نے اسے اپنے عدالت میں سماعت کے دوران راؤ انوار کو لایا،جنھوں نے اپنی مرضی سے عدالت سے استدعا کی تھی کہ ان سے تفتیش کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی جائے جس میں آئی ایس آئی اور انٹیلی جنس بیورو کے اہلکار بھی شامل ہوں۔
کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں بہیمانہ طریقے سے قتل کیئے جانے والے قبائلی علاقے سے پشتون نوجوان شہید نقیب اللہ مسعود کے مقدمے کے مرکزی ملزم اور کراچی پولیس کے افسر راؤ انوار سوشل میڈیا اور پی ٹی ایم کی احتجاجی ریلیوں اور جلسوں کے بعد دباو میں آکر اسے پناہ دینے والے پاکستانی ادارے مزید رسوائی سے بچنے کیلئے اس خونخوار پنجابی پولیس مجرم کی روپوشی ختم کرکے سپریم کورٹ میں پیش کیا تھا۔تاکہ عوامی غصہ ٹھنڈا پڑ جائے۔اور پشتونوں کی یہ تحریک مزید آگے نہ بڑے جو یعقینا آگے آزاد پشتون ریاستی تحریک کی شکل اختیار کرسکتی یے۔اسی طرح انھوں نے راو انور کو اپنے عدالت کے حکم پر ان کی اپنی سلامتی کی خاطر گرفتار کرلیا تھا نہ کہ ان کے خاندان کو انصاف دینے کی خاطر ! یاد رہے شہید نقیب اللہ محسود کو راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے 13 جنوری کو ایک مقابلے میں ظالمانہ طریقے سے قتل کیا تھا جو کہ کپڑے کا کاروبار کرنے کی غرض سے کراچی شہر میں مقیم تھا۔
پنجابی پولیس افسر راؤ انوار نے نقیب مسید کو جھوٹے انداز میں دہشت گرد کمانڈر قرار دیا تھا لیکن بعد ازاں سوشل میڈیا اور سماجی وعوامی حلقوں کے بے حد احتجاج کے بعد کی جانے والی تحقیقات میں ان کا یہ دعویٰ اور پولیس مقابلہ جعلی و جھوٹا ثابت ہوگیا تھا۔
پاکستان کے سپریم کورٹ نے پشتون عوام کے منظم احتجاج سے نقیب اللہ کے قتل کا از خود نوٹس لینے پر بالآخر مجبور ہوا تھا۔کیونکہ پشتون عوامی منظم و سخت احتجاج سے جابر ریاست کے مقتدر اعلی نے حالات کی نزاکت کو بھانپ کر سمجھ گیا تھا۔کہ ان احتجاج سے ان کے کوکھلے بدمعاش ریاست کی دیواروں میں دراڑیں آ سکتی ہے۔اسی لیئے انھوں نے 27 جنوری کو راؤ پنجابی مجرم راو انوار کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا لیکن وہ عدالت کی جانب سے بار بار طلب کیئے جانے کے باوجود لگ بھگ دو ماہ تک پاکستان کے خفیہ اداروں نے ناکام طریقے سے اسے عوام کی نظروں سے روپوش رکھنے کی سر تھوڑ کوشش کی ۔ اس کے بعد مجبور ہو کر جے آئی ٹی رپورٹ میں انھیں کہنا پڑا ، کہ ماورائے عدالت قتل کو چھپانے کے لیے اس پولیس افسر نے جھوٹ کا سہارا لیاتھا۔ جبکہ واقعے کے بعد راؤ انوار اور دیگر پولیس افسران و اہلکاروں نے نہ صرف اپنے جرائم واردات کے شواہد ضائع کیئے تھے۔ بلکہ اس روگ اسٹیٹ کے بے لگام پولیس افسران نے اپنے اختیارات کا بہت زیادہ ناجائز استعمال کیاتھا ۔جے آئی ٹی ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں قائم کی گئی تھی جس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’نقیب اللہ اور دیگر افراد کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ملا‘‘۔ساتھ ہی، جے آئی ٹی کی جانب سے اس اقدام کو دہشت گردی قرار دے دیا گیا۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’راؤ انوار نے پشتون نوجوان نقیب اللہ مسعوداور دیگر بہت سے قیدیوں کو اسی طرح ماورائے عدالت قتل کیاتھا ‘‘۔
سابق ایس ایس پی راؤ انوار کو جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی جانب سے کچھ ماہ قبل کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں شہید کیئے جانے والے نوجوان نقیب اللہ کے قتل کا ذمے دار قرار دے دیا گیا ہے۔
پولیس کے پنجابی افسر راؤ انوار، نقیب اللہ مسعود کو اس ظالمانہ طریقے ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔خیال رہے کہ پشتون تحفظ تحریک نے حالیہ دنوں میں پشاور اور لاہور میں بڑے ،بڑے کامیاب عوامی جلسوں کا انعقاد کیا تھا، جس سے اہم حکومتی اداروں میں زیادہ سی تشویش پائی جاتی ہے۔
ابتدا میں تو پاکستانی فوج کے سربراہ کی جانب سے اس تحریک پر بالواسطہ طور پر تنقید کی گئی تھی بقول پاکستانی جنرل کے ، کہ ’ فاٹا میں امن آیا ہے لوگوں نے ایک اور تحریک شروع کر دی ہے۔ بقول پاکستانی جنرل کے باہر اور اندر سے کچھ لوگ پاکستان کی سالمیت کے در پے ہیں۔‘
تاہم گذشتہ روز پشاور میں کورکمانڈر پشاور پنجابی لیفٹننٹ جنرل نذیر احمد بٹ نے صحافیوں کے ایک گروپ کو بریفنگ کے دوران پہلی مرتبہ پی ٹی ایم سے متعلق گفتگو کی تھی اور کہا تھا کہ ‘منظور پشتین اپنا بچہ ہے اگر وہ غصے میں بھی ہیں تو ہم انہیں سنیں گے۔’
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے گذشتہ اتوار کو لاہور میں جلسے سے خطاب میں ماورائے عدالت قتل اور گمشدہ افراد کی واپسی کے لیے ایک ’ٹُرتھ اینڈ ری کنسیلئیشن کمیشن‘ یعنی (حقائق اور مفاہمتی کمیشن) کے قیام کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ وہ 12 مئی کو کراچی میں جلسے کی کال بھی دے چکے ہیں۔پی ٹی ایم کے مسیحا پشتون نوجوانوں نے اگر پاکستانی فوج و آئی ایس آئی کے نام نہاد ٹیکٹس کے طور پر مزاکرات میں دھوکہ نہیں کھائے،تو ان کے کامیابی کے چراغ مستقبل قریب میں مزید روشن ہوسکتےہیں۔اسی طرح پاکستان کی مظلوم قوموں کے ساتھ ناروارکھے جانے والے سلوک کو دیکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے۔کہ جب جہاں اس ریاست کی گناہ طشت ازبام ہوتی ہے تو اداروں اور ریاست کو بچانے کی خاطر انھوں نے فرد کو قربانی کا بکرا بنایا یے ،تاکہ ریاست اور اس کے اداروں پر کوئی انگلی نہ اٹھاسکے۔جیسے ماضی میں پاکستان کے ایٹمی راز دوسرے ممالک ایران و شمالی کوریا کو منتقلی کی بات جب انٹرنیشنل میڈیا نے سامنے لایا،تو انھوں نے فورا اپنے اداروں کو بچانے کی خاطر ڈاکٹر قدیر کو پابند سلاسل کیا۔حالانکہ کامن سینس کی بات ہے کہ ایک ریاست کے ایسے اساس اداراتی نوعیت کے رازو ٹیکنالوجی کو ایک فرد اکیلا کیسے کسی دوسرے ملک کو منتقل کرسکتا یے؟ بالکل اسی طرح بلوچستان میں ہونے والے پاکستانی فوج کی مظالم میں صرف جنرل مشرف قطعا مجرم نہیں۔بلکہ پاکستان کی ناپاک قابض آرمی اور ریاست پاکستان شامل اے گناہ اور مجرم ہے۔اب اگر پشتون نوجوان شہید نقیب الللہ مسعود کی قاتل صرف راو انور ہے۔تو ریاست نے از خود اسی وقت انھیں عدالتی انصاف کے کھٹہرے میں کیوں لاکھڑا نہیں کیا ؟ کیونکہ کوئی بھی ریاست اپنے کسی بھی شہری کی زندگی جان و مال کی حفاظت کی ضمانت دے کر زمہدار ہوتا ہے۔اور وہ اس کی پابند بھی ہے۔ریاست نقیب مسعود کی قتل اور انصاف میں خود بھی فریق یے۔تو اب ریاست نے اپنی زمہداری پوری کرنے میں کیوں ناکام ہوا؟ آیا اب کوئی محکوم بلوچ،سندھی یاپشتون قوم یہ سوچھے کہ ریاست پاکستان ان کی وطن پر قابض ہوکر بھی ان کی جان ومال کی حفاظت میں ناکام ہے ؟ اور اب ان قوموں کو اپنی قوم کی نقیب جیسے نوجوانوں کی حفاظت کیلئے انھیں عالمی دنیا سے مدد و مداخلت اور فریق بننے کی اپیل کرنی چائیے ؟یا مستقبل میں کون اس بات کی ضمانت دے سکتا ہے کہ اس ریاست کے اداروں سے مظلوم و محکوم قومیتوں میں دوبارہ کسی کی اس طرح ماورائے قانون قتل نہیں ہو گا؟ ان سب سوالوں کا جواب ڈھونڈنا ضروری ہیں۔ان پر غورو فکر کرکے ہی محکوم و مظلوم قوموں کی عوام کی زندگی کو کسی حد تک ریاستی خونخورا کتوں سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔اب اگر اس نقطے پر ہم غور وفکر کرے کہ اگر راو انور ہی نقیب مسعود کی قاتل ہے۔تو اتنے عرصے میں ریاست خود کہاں تھا؟ کیونکہ آخر پشتون عوام اپنی مدد آپ کے تحت مجبور ہو کر ہمت کرکے اپنے عوام کو منظم کرکے اپنے قاتل کو نہ صرف عوامی و ریاستی عدالت کے کھٹہرا میں لاکھڑا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ بلکہ ریاست خود پی ٹی ایم کی منظم و سخت احتجاج سے مجبور ہو کر اپنے عدالتی فیصلہ میں راو انور کو مجرم ٹھرانے کامطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے آپ کو بری الزمہ قرار دیتی ہے۔لیکن حقیقت میں پاکستانی اداروں سےہزاروں ایسے بے گناہوں کے قتل کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ریاست تمام مظلوموں و مقتولوں کا خود قاتل اور مجرم ہے۔ پی ٹی ایم کے احتجاج مہ صرف ریاست کے تمام اداروں کیلئے سردرد بن کر جے آئی ٹی بنوانے میں کامیاب ہوئے۔بلکہ عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کرنے و پاکستان کی تمام اداروں میں ایک زلزلہ برپاکرنے کی موجب بھی بنے۔لہزا نقیب مسید کا قاتل راو انور نہیں بلکہ ریاست پاکستان یے ۔ کیونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ۔ ایسے واقعے مستقبل میں دوبارہ بھی یعقینا ہونگے ۔ان کو ہمیشہ کیلئے روکنے کی خاطر دیرپا حل اور ظلم کی ایسی کالی راتیں اس وقت روشن سحر میں بدل جائینگے جب سندھی، پشتون و بلوچ قوم کی قومی ریاست دنیاکے نقشے پر دوسرے اقوام کی طرح وجود میں آئینگے ۔