Homeخبریںپندرہ سالہ جہدآجوئی کے کمانڈر  مراد بلوچ اور انکے  ساتھی حمل بلوچ...

پندرہ سالہ جہدآجوئی کے کمانڈر  مراد بلوچ اور انکے  ساتھی حمل بلوچ  کے مشکوک قتل پر غیر ذمہ دارانہ بیانات اور انتشار پھیلانے والوں کے خلاف بی ایل ایف و بی این ایم ایکشن لیں: عابد دُر محمد

جنوبی کوریا (ہمگام نیوز) بی این ایم کے دیرینہ اور اہم سیاسی کارکن عابد در محمد بلوچ نے اپنے بیان میں کہا کہ میں  بی این ایم کاسینئر اور بنیادی کارکن اور شہید غلام محمد بلوچ کےکاروان کا ہمسفر ہوں اور انکے خاندان کے ساتھ میرا تعلق ہے۔
گزشتہ مہینے  میرے بھائی زاہد عرف مراد کو مغربی بلوچستان کے شہر پيشن کے ایک گاؤں میں نامعلوم مسلح افراد نے ان کے ساتھی حمل بلوچ کے ساتھ شھید کردیا تھا۔ ان کی شہادت  کے کچھ دن بعد انکی اپنی تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ  کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا  جس میں زاہد عرف مراد بلوچ کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے بعد ایک مشکوک  بات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ انکے بھائی کے سرنڈر کے بعد شہید زاہد عرف مراد پر  سرنڈر کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جارہا تھا کہ وہ بھی آجوئی کے جنگ سے دست برداری کا اعلان کرے لیکن وہ انکار کرتے رہے  اسکی وجہ سے انکو مختلف ذرائع سے ڈرایا اور دھمکایا جا رہا تھا لیکن وہ اپنے مشن پر ثابت قدم رہے۔
میں مراد کے بڑے بھائی اور بی این ایم کے بنیادی کارکن کی حیثیت سے اس طرح کے مشکوک  بیان کے بعد تعجب اور حیرانی کا شکار ہوا کہ زاہد بلوچ نے اپنی شہادت سے آدھا گھنٹہ پہلے مجھ سے فون پہ رابطہ کیا تھا لیکن انہوں نے اس طرح کا کوئی ذکر تک نہیں کیا حالانکہ میں مراد بلوچ کا بڑا بھائی اور اس کا سیاسی ہمسفر تھا وہ کوئی بات یا راز مجھ سے نہیں چھپاتے تھے مگر انہوں نے اس طرح کی کسی چیز کا اظہار تک نہیں کیا  کہ مجھ پر دباؤ ہے یا مجھے قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
اس طرح کے مبہم بیان نے مجھے بہت رنجیدہ اور غمزدہ کردیا، لیکن  بعد میں بی این ایم کے ایک سینئرز رہنماء نے مجھے فون کیا جو میری فیملی ممبر کی بھی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے مجھے نصیحت کی کہ آپ اس مسئلے میں صبر اور برداشت کا مظاہرہ کریں کیونکہ ساجد حسین کے اس دنیائے فانی سے چلے جانے کے بعد اب اس فیملی کے  گائیڈ کی ذمہ داری آپکے کندھوں پر ہے لہذا آپ آجکل کے اس پیچیدہ دور میں ان  مسائل اور مشکلات کو صبر اور تحمل کے ساتھ خندہ پیشانی سے سامناکرتے ہوئے چلیں۔ میں نے ان کی ان باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے ان چیزوں کو خاموشی کے ساتھ دیکھتا اور ان کا سامنا کرتا رہا۔
مرحوم کے قتل کے کچھ دنوں بعد ایک ساتھی ہارون ارمان بلوچ  فیسبک پر ایک پوسٹ لگاتے ہیں جس کے نیچے ایک بلوچ شاعر دانشور اور بلوچ زانتکار جن کا بلوچ آزادی پسندوں سے قربت ہے ایک کمنٹ کرتے ہیں کہ آپکے شھید کو کسی نے اپنا تسلیم ہی نہیں کیا لیکن بعد میں  آپ کی فیملی کے دباؤ کی وجہ سے وہ  ایک غدار کی موت کے بجائے شہید کے لقب سے نوازے گئے۔ اس غیر ذمہ دارانہ کمنٹ پر میں نے اس بلوچ شاعر سے رابطے کو ضروری سمجھا اور ان سے وضاحت مانگی کہ جناب جب آپ کے پاس اس طرح کی معلومات ہیں تو یقینا آپ قاتلوں کو اچھی طرح جانتے ہیں لہذا آپ ہماری فیملی کی رہنمائی کریں لیکن بعد میں وہ اپنے کمنٹ پہ ٹال مٹول سے کام لیتے رہے اور بہت سی بے جاہ تاویلات پیش کرتے رہے آخرمیں پھر اپنی اس اصل بات کی طرف ہی آ گئے جس کو انہوں  نے خود سازا تھا۔
اگرچہ بعد میں انہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی  بلوچ قوم سے اپنی  اس طرح کے غیر زمہ دارانہ کمنٹ پر معزرت بھی کی تھی۔ اس طرح کے پائیدار اور ذمہ دار لوگوں کے بے جاہ کمنٹس کودیکھر مجھے اپنی خاموشی کچھ بے معنی سی لگنے لگی، جس کے بعد میں نے اپنے تئیں تحقیقات کرنا مناسب سمجھا تاکہ میں اصل حقیقت کی طرف پہنچ سکوں اسی جستجو کے راستہ پر چلتے ہوئے دو دن پہلے میں نے فیسبک پہ  کوئی ایک پوسٹ کیا تاکہ غیر ذمہ داروں کو میں جانچ سکوں تو بی این ایم جرمنی زون کے ایک ذمہ دار کارکن اور بی این ایم کے چیئرمین خلیل بلوچ کے بھائی سمیع اللہ نے میرے اس پوسٹ کے نیچے کمنٹ دیتے ہوئے کہا کہ آپکا بھائی زاہد عرف مراد کے قاتل انکے اپنے بھائی ہیں تو انکے اس کمنٹ پر میں نے ان سے وضاحت  طلب کرنا ضروری سمجھا کہ بھائیوں سے آپکا مراد تنظیمی اور سیاسی بھائی مراد ہیں یا کوئی اور؟ تو انہوں نے بدنیتی سے بھرپور کمنٹ میں اشارہ  کرتے ہوئے کہا کہ شہید کے اپنے بھائی بلال کی طرف،  جوکہ حالیہ سرنڈر شدہ ہیں لہذا ان سارے مشکوک بیانات کے بعد میں بی این ایم سے اور بی ایل ایف سے یہ اپیل کرتا ہوں بلکہ ان سے وضاحتی بیان کیلئے حق بجانب ہوں  کہ آپکے تنظیمی لوگوں کے غیر ذمہ دارانہ کمنٹس اور اپنے تنظیم کے غیرواضح بیانات کی روشنی میں مجھ سے اس چیز کی وضاحت ہونی چاہیئے کہ انکو پریشر دینے والے کون تھے؟کیونکہ  مراد سے تو میں انکے قتل سے آدھا گھنٹہ پہلے رابطے میں تھا انہوں نے اس طرح کے کسی قسم کی معلومات کا مجھ سے تبادلہ نہیں کیا تھا حالانکہ میں انکا بڑا بھائی اور سیاسی ہمراز بھی تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ مراد کے قتل کی وجہ انکی ایک سیاسی وابستگی کے بنیاد پہ تھی اور ان کے بھائی صغیر عرف بلال کا سرنڈر بھی انکے اپنے ہاں شاید ایک سیاسی وابستگی رکھتی ہے کیونکہ وہ بھی آجوئی کے مزاحمتی کارواں کے ایک ہمراز تھے شاید کہ انکے سرنڈر کے  اسباب سیاسی ہوں جنکو میں نہیں جان سکتا اور جن سے میرا کوئی  واسطہ بھی نہیں۔
میں وضاحت طلب کرتا ہوں کہ بی این ایم جرمنی زون کے سمیع اللہ کن بنیادوں پہ میری اور شہید غلام محمد کی فیملی کے درمیان دراڈ پیدا کرنے کی سازش کر رہا ہے کیونکہ وہ اپنے کمنٹ سے یہی اشارہ دے رہے تھے کہ شہید مراد کو اسکے اپنے بھائی بلال نے قتل کیا ہے۔ انکے اس بغیر شواہد والے کمنٹ کو میں اپنی اور شہید غلام محمد کی فیملی کو توڑنے اور ہمارے رشتوں میں دراڑ ڈالنے کے مترادف سمجھتا ہوں، یا وہ اپنے اس طرز کے غیر ذمہ دارانہ کمنٹ سے شہید مراد کے  اصل قاتلوں کو چھپانا چاہ رہے ہیں۔ لہذا سمیع اللہ کے اس روش پہ میں  بی این ایم سے یہی التماس کرتا ہوں کہ سمیع اللہ کی پارٹی رکنیت معطل کی جائے کیونکہ وہ اس قسم کے غیر ذمہ دار شخصیت کو جو مجھ جیسے دیرینہ کارکن اور شھید واجہ غلام محمد کی فیملی میں دراڑ اور چپکلش ڈالنے کی سازش کر رہے ہیں۔
ایسے غیر ذمہ دار شخص کو کم از کم  شہید غلام محمد کی پارٹی میں رہنے کی کوئی اجازت نہ ہو، اور باقی ساتھ ساتھ میں بلوچستان لبریشن فرنٹ اور براس سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی صفوں کو خوب ٹٹول لیں شاید کہ انکی صفوں میں میرے بھائی کے خون سے رنگین ہاتھ مل جائیں۔ اگرچہ ابھی تک بالائی سطح پر مجھے اسطرح کا مشکوک کرادار نظرنہیں آرہا لیکن غیرذمہ دارانہ اور مشکوک بیانات کو جانچ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کچھ بعید نہیں کہ نچھلے طبقے نے یہ کام اپنے بالائی طبقے کی رضاء اور علم کے بغیر انجام دیا ہو جیساکہ پہلے ہوتا رہا ہے۔ لہذا اگر تنظیم کے بالائی طبقے نے پچھلے تاریخ کو دہراتے ہوئے اس چیزکو اہمیت نہیں دی اور اس معاملے کو دبانے والی سیاست کو فروغ دینے کی کوشش کی تو میں  بلوچ عوام کو اس بات کا گواہ بناتا ہوں کہ میرا تحقیق از خود جاری ہے اپنے ذرائع سے اگر مجھے تنظیم کی صفوں سے اپنے بھائی کے خون سے آلود ہاتھ مل گئے تو پھر اس وقت حالات کی گھمبیرتا اور نزاکت کا انداز بہت ہی مختلف ہوگا۔ مجھے قوی امید ہے کہ بی این ایم اور بی ایل ایف مشترکہ طور پر کسی نتیجہ خیز انجام تک پہنچنے میں کامیاب ہونے کے بعد اس طرح کے پندرہ سالہ کمانڈر کی قربانیوں کو رائیگاں ہونے نہیں دینگے بلکہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے والوں کے بیانات کا نوٹس لیکر ذمہ داروں کو کڑی سزا دینگے۔
Exit mobile version