دوشنبه, نوومبر 25, 2024
Homeخبریںپیلمائرا میں شامی فوج کی فتح، داعش کی پسپائی

پیلمائرا میں شامی فوج کی فتح، داعش کی پسپائی

شامی فوجوں کی جانب سے پیلمائرا کا علاقہ واپس لیے جانے بعد وہاں گذشتہ دس ماہ سے جاری شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے قبضے کا خاتمہ ہو گیا ہے۔

اس فتح کو دولت اسلامیہ کی مکمل شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ رقہ، دیر الزور، اور موصل میں ان کے محفوظ ٹھکانے اب بھی موجود ہیں، لیکن یہ فتح جغرافیائی اور سیاسی دونوں طرح سے اس جنگجو تنظیم کی طاقت کی بنیادیں ہلانے میں ایک اہم پیش رفت ہے۔

اس فتح سے اس تاثر کی بھی نفی ہوتی ہے کہ اس نام نہاد خلافت کی مسلح افواج ناقابل شکست ہیں۔

گذشتہ سال مئی میں تاریخی اہمیت کے حامل اس شہر کے سقوط کے بعد پیدا ہونے والے نفسیاتی اثرات کم و بیش وہی تھے جو اسی ماہ دولت اسلامیہ کے عراق کے شہر رمادی پر قبضہ حاصل کرنے کے بعد تھے۔

بیجی، تکریت، کوبانی اور الحسکہ میں شکست کھانے کے فوراً بعد دولت اسلامیہ ان دونوں علاقوں پر قابض ہونے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ اس نے دونوں شہروں میں شامی اور عراقی فوج کی پیش قدمی سے قبل ہی ان پر غلبہ حاصل کر لیا تھا۔

اس وقت ایسا لگتا تھا کہ دولت اسلامیہ اب ہمیشہ حاوی رہے گی، اور اس میں کسی بھی شکست کو برداشت کرنے اور اس کے فوراً بعد اپنے مخالفین پر قابو پانے اور اپنی مرضی کے علاقوں پر قبضہ کرنےکی صلاحیت موجود ہے۔

پیلمائرا کا سقوط دولت اسلامیہ کے خلاف لڑنے والے عالمی اتحاد کی بڑی ناکامی تھی اور یقینا جنگجوؤں کو سالوں نہیں بلکہ مہینوں میں ختم کرنے کے دعوے پورے کرنے میں بڑی رکاوٹ بھی۔

رمادی اور پیلمائرا کے علاقے اب دولت اسلامیہ کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں، جس پر اس کی طرف سے کسی خاص جوابی کارروائی کا نہ ہونا بھی ایک خوش آئند بات ہے۔ خیال ہے کہ اس کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے اور وہ دفاعی حالت میں آ گئی ہے۔

لیکن دولت اسلامیہ کی حیثیت اب بھی ایک خطرناک عفریت کی ہے، جو اپنے سفاکانہ خود کش حملوں سے معصوم شہریوں کو ہلاک کر سکتی ہے۔ اس کی حالیہ مثال بغداد کے فٹ بال سٹیڈیم میں ہونے والا خود کش حملہ ہے۔

اس کے جنگجو کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہیں، جس کے گواہ کرکوک کے نواحی علاقوں کے رہائشی ہیں اور اس کے پاس اب بھی ہزاروں کی تعداد میں مسلح جنگجو موجود ہیں جو ان کے اہم ٹھکانوں کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔

اس فتح کا دوسرا مسئلہ یقیناً یہ ہے کہ یہ فتح دولت اسلامیہ کو شکست دینے کے بنائے گئے عالمی اتحاد نے نہیں بلکہ شامی صدر بشار الاسد کی فوجوں نے روس کی مدد سے حاصل کی ہے۔ دونوں کو عالمی اتحاد میں شامل زیادہ تر ممالک کی مخالفت کا سامنا ہے۔

اقوام متحدہ میں شام کی شکستہ سیاسی صورت حال کے بارے میں کامیاب مذاکرات کے بعد بشار الاسد پیلمائرا کی فتح کو بھی اپنی اس دلیل کو تقویت دینے کے لیے استعمال کریں گے کہ وہی واحد فریق ہیں جو دہشت گری کے خلاف جنگ میں واقعی سنجیدہ ہیں اس لیے انھی کو اس جنگ کے خاتمے تک ملک کا صدر برقرار رکھا جائے۔

اس دلیل کو ہضم کرنا مشکل ہو گا۔ خاص طور پر ان مغربی ممالک کے لیے جن کا مستقل اصرار ہے کہ بشار الاسد کو صدارت چھوڑ دینی چاہیے، اور ان خلیجی ریاستوں کے لیے بھی جو اسد کے خلاف لڑنے والی باغی قوتوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں، اور جن کا خیال ہے کہ دولت اسلامیہ کی طاقت وہ سنی آبادی ہے جس کو اسد اور ایران کے ظلم سے نجات دلانے کے دعوے کے ساتھ وہ میدان میں موجود ہے۔

اس وقت اہمیت اس بات کی ہے کہ دولت اسلامیہ کے خلاف عالمی اتحاد کا اگلا قدم کیا ہو گا۔

اگر صدر اسد کی فوجیں پانچ سال بعد فتح حاصل کر سکتی ہیں تو وہ روس کی فضائی طاقت کو کامیابی سے استعمال کرتے ہوئے مشرق میں رقہ کی جانب بھی اتحادی افواج کے پہنچنے سے پہلے رخ کر سکتی ہیں۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو دولت اسلامیہ کے خلاف عالمی اتحاد کے رہے سہے دعوے بھی ناکام ہو جائیں گے۔

شامی فوجوں کی موجودہ کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے ایسا ہونا بہت مشکل نظر آتا ہے لیکن ناممکن نہیں۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے وعدہ کیا ہے کہ ضروت پڑنے پر ان کی افواج کسی بھی وقت دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ کا حصہ بننے کے لیے تیار ہوں گی، لیکن اسد کی فوجوں کا ان سے آگے بڑھ کر جنگجوؤں سے مقابلہ کر رہی ہیں جس سے ایک بار پھر شام پر ان کی حکومت مظبوط ہوتی نظر آتی ہے۔

شام کی یہ فتح خلیجی ممالک کے لیے بہت تکلیف دہ اور مغربی ممالک کے لیے انتہائی شرمندگی کا باعث ہوگی جو بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے لیے پرعزم ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قسمت اس وقت اسد حکومت کے ساتھ ہے۔ یقینی شکست سے دور اور گذشتہ ستمبر میں روس کی مدد حاصل کرنے کے بعد اسد حکومت کو مذاکرات کی میز پر فی الحال کسی سمجھوتے کی ضرورت نظر نہیں آتی۔

اب مخالف قوتوں کی کامیابی کا راستہ یہی ہے کہ وہ دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ کی حمایت جاری رکھیں، تاکہ اس تاثر کو زائل کیا جا سکے کہ دولت اسلامیہ کے خاتمے کے لیے بر سر پیکار تمام قوتوں میں اسد ہی وہ واحد فریق ہیں جو اس کام میں سنجیدہ ہیں۔

برطانیہ میں امور خارجہ پر کام کرنے والی ایک کمیٹی کی حالیہ رپورٹ کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اسد حکومت اور باغی قوتیں اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مل کر دولت اسلامیہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا عہد کریں۔

بہرحال، پیلمائرا کی فتح نے کافی عرصے مشکلات کا شکار اسد حکومت میں جان ڈال دی ہے۔ اس لیے ہمیں امن مذاکرات میں کسی اہم پیش رفت کی توقع نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ اب اسد حکومت اب اپنی قانونی حیثیت کو سیاسی اور عسکری دونوں طریقوں سے مضبوط کرنے میں متحرک نظر آتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز