برلن ( ہمگام رپورٹ )
امریکی وزارت دفاع پینٹاگون نے اپنے سالانہ رپورٹ میں دعوی کیا ہے کہ چین اپنے عالمی منصوبے ون بیلٹ ون روڈ کے تحفظ کے لیے پاکستان میں فوجی اڈہ قائم کرے گا۔
امریکی کانگریس کو پیش کئ گئ پینٹاگون رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین اس سلسلے میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہے ۔ اس وقت چین کا ایک فوجی اڈہ افریقی ملک جبوتئ میں قائم ہے اور اسی طرح چین اپنے سامراجی عزائم کو وسعت دینے کے لیے خودمختار ریاست تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے اور وہاں طاقت کا بے دریغ استعمال کررہا ہے ۔
جبکہ سری لنکا کی اہم بندرگاہ بمبنٹوٹا کو 99 سال کی لیز کے نام پر چائنا مرچنٹس پورٹس ہولڈنگ کے حوالے کیا گیا ۔
پینٹاگون کی حالیہ رپورٹ بلوچ قومی قیادت کی اس موقف کو تقویت دیتا ہے کہ چین سی پیک کے نام پر گوادر پر قبضہ کرکے عالمی تجارت پر اپنا مکمل کنڑول حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ چین کی اس منصوبہ کی کامیابی سے بلوچ اپنے زمین سے محروم ہوسکتے ہیں جبکہ امریکہ انڈیا یا دیگر ابھرتے ہوئے معاشی قوتیں بہت کچھ کھو سکتے ہیں ۔
چین کا منصوبہ ہے کہ سی پیک کی کامیابی کے بعد آئندہ 10 سالوں میں اپنا تجارتی حجم کو کم از کم تین ٹریلین ڈالر تک پہنچائے ۔
سی پیک پر پنچاب اس لیے شادیانے بجا رہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں پاکستان کو بہت کچھ ملے گا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے گزشتہ سال پاکستانی فوج ایک ٹاپ جنرل نے کہا تھا کہ پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا سوائے ان کے ٹائروں کے پنچر لگانے کے ۔
چین پاکستان اور اس کے فوج کے ذریعے گوادر تک رسائی کے لیے کئ سالوں سے پاکستان اور انکے جرنیلوں کو نوالہ پیش کررہا ہے لیکن بلوچ قومی جدوجہد آزادی اور مزاحمت سے پریشان چین کا اب پاکستان سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے ۔
لیکن چین اپنے 52 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی کامیابی کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے ۔
پینٹاگون رپورٹ کے مطابق اب وہ پاکستان یعنی مقبوضہ بلوچستان میں فوجی اڈہ قائم کرنے کے لیے سنجیدگی سے غور کر رہا ہے ۔ چین پاکستانی کرایہ فوج پر اتنا بھروسہ نہیں کرسکتا ہے اس لیے اب وہ اپنے فوجی طاقت کے ذریعے بلوچ قومی جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لیے پلاننگ کرے گا۔
اب تک چین نے دنیا کہ کسی بھی ملک یا مقبوضہ علاقوں میں سرمایہ کاری کے نام پر قبضہ پالیسی کو کامیابی سے ہمکنار کیا ہے لیکن چین پاکستان کی بدولت اپنا 52 ارب ڈالر کا سرمایہ گوادر میں ڈوبتا دیکھ رہا ہے کیونکہ چین کو جس مزاحمت کا سامنا ہے وہ اس کے سرمایہ کاری کے لیے مفید نہیں ہے ۔
چین سلک روڈ یا بلوچستان میں اپنے دیگر سامراجی منصوبوں کے لیے اب یورپ سمیت دیگر ممالک کو شراکت دار بنا رہا ہے اس سلسلے میں بلوچ قومی قیادت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہیں کہ وہ سنجیدگی سے بیٹھ کر متحد ہوکر منظم انداز میں چین کے اس سامراجی منصوبوں کے خلاف جدوجہد میں تیزی لائیں تاکہ پاکستانی شراکت اور کمک سے بلوچ سرزمین پر چینی سامراجی عزائم کامیاب نہ ہوں ۔