کوئٹہ ( ہمگام نیوز) بلوچ نیشنل فرنٹ کی جانب سے بی این ایم کے سیکرٹری جنرل اور بی این ایف کے سابقہ سیکرٹری ڈاکٹر منان بلوچ و ساتھیوں کی چہلم کے موقع پر کولواہ میں بی ایس او آزاد کے سینئروائس چیئرمین کمال بلوچ کی صدارت میں جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا۔ جلسے میں خواتین و بچوں سمیت عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ جلسے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے بی ایس او آزاد کے سینئروائس چیئرمین کمال بلوچ نے ڈاکٹر منان بلوچ وساتھیوں کی شہادت پر انہیں سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہدا نے اپنی زمین و قوم کی آزادی کے لئے جانوں کا نذرانہ دے کر بلوچ عوام کا سرفخر سے بلند کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی آزادی کے لئے شہید ہونے والے شہدا کا پیغام ہمارے لئے یہی ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اپنا انفرادی اجتماعی کردار ادا کرے۔انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم نے تاریخ میں کبھی غلامی تسلیم کی ہے اور نہ ہی آئندہ کبھی غلامی کو تسلیم کرے گی۔ ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کی قربانی سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بلوچ قوم اپنی آزادی کے حصول تک جدوجہد کرتی رہے گی۔کمال بلوچ نے کہا کہ جس طرح بلوچوں نے بلوچستان پر قبضہ کرنے والے دیگر طاقتوں سے بلوچستان کو بطور آزاد خطہ تسلیم کروایا، اسی طرح بلوچ عوام کی یکجہتی و اتحاد دشمن کو یہ باور کرائے گی کہ بلوچستان پر صرف بلوچوں کاحق ہے۔دشمن کو یہ باور کرانے کے لئے ہمیں تکالیف سے گزرنا پڑے گا کیوں کہ آزادی ایک آسان شے نہیں۔آزادی ہم سے کیسی قیمت مانگتی ہے یہ ہمارے سامنے ہے، لیکن یہ بات دشمن کے شکست کا باعث بن رہی ہے کہ مائیں اپنے لخت جگر قربان کرکے آزادی کے تحریک کی آبیاری کررہے ہیں۔کمال بلوچ نے کہا کہ دشمن اپنے کرایہ داروں کو حوصلہ دینے کے لئے بلوچ تحریک کو ختم کرنے کا پروپگنڈہ کررہی ہے، لیکن یہ جلسہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ تحریک عوامی ہے، جسے چند ضمیر فروش و لالچی لوگوں کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں کہ اس تحریک میں بلوچ شہدا کے خون و ارمان شامل ہیں۔کمال بلوچ نے کہا کہ بلوچ جہد آزادی کے سامنے روڑے اٹکانے والوں کو اس دن سے ڈرنا چاہیے جب انہیں بلوچستان میں قبر بھی نصیب نہ ہوگی۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے قیمتی وسائل پر قبضہ گیریت برقرار رکھنے کے لئے ریاست نیشنل پارٹی، سرداروں، پارلیمانی جماعتوں و زر خرید کو مراعات دے کر بلوچ عوام کا قتل عام کررہی ہے۔ تاکہ چائنا کے تعاون سے لالچی و مردہ ضمیر لوگوں کو خرید کر انہیں بلوچ عوام کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔لیکن پاکستان و چائنا کو یہ تلخ حقیقت تسلیم کرنا ہو گا کہ بلوچستان میں بلوچ کی مرضی کے برعکس کوئی پروجیکٹ کامیاب نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ جنگ زدہ بلوچ خطے میں چائنا کی سرمایہ کاری صرف سرمایہ ضائع کرنے کے مترادف ہوگا۔ کیوں کہ بلوچ عوام ہر اس پروجیکٹ کے خلاف لڑیں گے جو کہ بلوچ عوام کی منشاء کے بغیر پاکستانی یا دوسرے سرمایہ کاروں کی مدد سے ہو رہی ہے۔چیئرمین کمال بلوچ نے خطاب جاری کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی جماعتیں، و سیاسی سربراہاں اس بات پر مصر ہیں کہ بلوچستان میں سرمایہ کاری سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، لیکن اس سے پہلے سیندک، ریکوڈک، سوئی گیس، سمیت کھربوں کے پروجیکٹ جس طرح بلوچ عوام کے لئے معاشی بدحالی کا باعث بن گئے ہیں، اکنامک کوریڈور بھی اسی طرح بلوچ عوام کے استحصال کا باعث بنے گی۔کمال بلوچ نے کہا کہ بلوچ عوام کی خوش حالی آزادی سے مشروط ہے۔ قومی آزادی کے حصول کے بغیر بلوچ قوم معاشی، سیاسی و تعلیمی بدحالی کی گہرائی میں دھنستی چلی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ ایک پر امن و آزاد بلوچستان کے حصول کے لئے ہمیں سرداروں و پارلیمانی پارٹیوں کو بلوچستان سے بیدخل کرنا ہوگا۔ کیوں کہ ان کی وجود ہی پاکستان کی وجود کو بلوچستان میں ممکن بنا رہی ہے۔ ریاست جیسے کھوکھلے و غیر فطری ریاست کی قبضہ گیریت سے بلوچ عوام اپنے عظیم شہدا کی نقش پا پر چل کر ضرور کامیاب ہوگی۔انہوں نے کہا کہ آزادی کے حصول کا انحصار بیرونی ممالک پر نہیں بلکہ اپنے عوام پر بھروسہ کرنے سے ہے۔یہاں سے ہزاروں میل دور لوگ ہماری اخلاقی حمایت کرسکتے ہیں لیکن آزادی کے حصول کے لئے خود ہمیں ہی کمربستہ ہوکر جدوجہد کرنا ہوگا۔چیئرمین کمال بلوچ نے کہا بلوچ شہدا کی مقدس قربانیاں اس جنگ کو عوامی جنگ میں تبدیل کرچکے ہیں۔ جسے پاکستان کسی طور ختم نہیں کرسکتا۔ بی این ایم کے لیڈر و جلسے کے مہمان خاص ماہ گنج بلوچ نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ڈاکٹر منان بلوچ و ساتھیوں کی شہادت ہمارے اس عہد کی تجدید کرتی ہے کہ بلوچ قومی آزادی کے حصول کے لئے ہم کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ ماہ گنج بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر منان بلوچ کی شہادت و ان کی زندگی نہ صرف بلوچ قوم کے لئے بلکہ دنیا کی دیگر محکوم اقوام کے لئے ایک مشعل راہ ہے ۔ کیوں کہ انہوں نے قومی آزادی و عوامی سیاست کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا تھا، دشمن نے ڈاکٹر منان بلوچ کو اس لئے شہید کردیا کیوں کہ وہ بلوچ عوام کی قوت پر یقین کرکے انہیں سیاسی جدوجہد میں شامل کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ ریاست کو یہ بات گراں گزرتی ہے کہ بلوچ عوام اپنی مرضی کا مالک خود بنیں ۔ کیوں کہ ذاتی مفادات کے خاطر یہ لوگ قومی مستقبل کا سودا لگا چکے ہیں۔ ماہ گنج بلوچ نے کہا کہ کسی طاقت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ بلوچ سرزمین و آئندہ نسلوں کی آزادی کا سودا اپنے عیاشیوں کی قیمت پرلگائے۔ کیوں کہ شہید رضا جہانگیر، شہید ڈاکٹر منان، چیئرمین غلام محمد، بالاچ خان سمیت ہزاروں شہدا کا مقدس خون اس تحریک کو بلوچ عوام کے لئے مقدس بنا چکی ہے۔بی این ایم کی رہنماء نے کہا کہ چند ضمیر فروش اس ریاست کے سامنے بلوچ آزادی کی جدوجہد سے دستبردار ہورہے ہیں کہ جس کے نوے ہزار فوجی اسلحہ سمیت جنگی قیدی بن گئے تھے۔ لیکن بلوچ نوجوان ہزاروں سالوں کی قابل فخر تاریخ میں ہمیشہ وطن کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر سرخرو ہوئے ہیں۔اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے آج بھی ہزاروں نوجوان اپنی زمین کی تحفظ کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔ماہ گنج بلوچ نے کہا کہ ریاست کے سامنے غلامی تسلیم کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ بنگالیوں سے سبق سیکھیں۔ کیوں کہ بنگلہ دیش کی آزادی کے وقت بنگالیوں سے غداری کرنے والے ہزاروں بہاری آج بھی بے وطن ہیں۔ جنہیں پاکستان شہریت دینے پر بھی تیار نہیں۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بی ایس او آزاد کے جونیئروائس چیئرمین ڈاکٹر سلیمان بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر منان بلوچ جیسے ہستیوں کی جسمانی جدائی جہاں باعثِ نقصان ہے، وہیں ایسے کرداروں کی قربانیاں ناقابلِ شکست جذبات اُبھارنے کا سبب بنتی ہیں۔ سلیمان بلوچ نے کہا کہ پاکستان بلوچ جدوجہد کو ایک عوامی تحریک تسلیم کرچکی ہے اس لئے بلوچ عوام کے لیڈرا ن کو شہید کررہے ہیں تاکہ بلوچ عوام کو منتشر کیا جا سکے۔ آپریشنوں کے ساتھ ساتھ بلوچ عوام کے ذہنوں پر وار کرنے کے لئے ریاست مذہب و خوف کو بطور ہتھیار آزما رہی ہے۔ تاکہ بلوچ عوام کو تحریک سے دور کیا جا سکے۔ اپنے پروپگنڈے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہزاروں سالوں سے بغیر کسی تفریق کے رہنے والے بلوچ قوم کو زکری و نمازی کے فرق میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔مدرسوں میں اسلام کے نام پر شدت پسند ی کو فروغ دیا جا رہا ہے تاکہ سیکولر بلوچ معاشرے کو مسخ کیا جا سکے۔ سلیمان بلوچ نے کہا کہ تمام تر انسانی اخلاقیات کو پاؤں سے روندنے والے اور خواتین پر تشدد کرنے والی ریاست و اس کی فورسزاسلامی نہیں ہو سکتی۔ کیوں کہ یہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے لوگوں کو قتل عام کررہے ہیں۔انسانیت و امن کے نعروں کے ساتھ ساتھ ریاست کے لئے اسلام بھی ایک کاروباری نعرہ بن چکی ہے۔ جسے استعمال کرکے فورسز ناعاقبت اندیش ملّاؤں کے ذریعے بلوچ معاشرے میں بگاڑ لانے کا سبب بن رہے ہیں۔سلیمان بلوچ نے کہا ایک طرف بلوچ خواتین، بچوں، نہتے عوام و سیاسی لیڈران کا قتل عام کیا جارہا ہے تو دوسری طرف میڈیا میں وزیر اعلیٰ فورسز کے ہمراہ بلوچ کلچر ڈے منا کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کررہاہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ عوام کو مصنوعی کلچر شو نہیں بلکہ مکمل آزادی چاہیے۔ اپنے کمزور جڑوں کو جھوٹ و طاقت کے زور پر ریاست برقرار نہیں رکھ سکتا۔ کیوں کہ بلوچ عوام آزادی کے حصول کے لئے قربانی دینے کا ہُنر سیکھ چکے ہیں۔ڈاکٹر سلیمان بلوچ نے کہا کہ ہماری خوشحالی و امن اور ثقافت و زبان کا تحفظ آزاد بلوچ ریاست کی بحالی سے ہی ممکن ہے۔