کوئٹہ (ہمگام نیوز ویب ڈیسک ) دنیا کا کوئی بھی ملک اور شہر ہو وہاں زندگی کا سب سے اہم ضرورت پانی ہوتی ہے ،جہاں پانی وہاں زندگی ہوتی ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق اگر اب کوئٹہ میں زلزلہ آیا تو اس بار یہ 1935ء میں آنے والے قیامت خیز زلزلے کی شدت سے دو گنا زیادہ تباہ کُن ثابت ہوگا۔ بلوچستان 1998 میں قابض پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد سے بارشیں نہ ہونے کے باعث خشک سالی بہت بڑھ گئی ہے ،اور غیرقانونی ڈرلنگ اور ٹیوب ویل لگانے کے باعث چند سال میں زیرزمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے گرنے سے اب پانی مشینوں کے ذریعے نکالاجارہا ہے۔ قابض پاکستان کی ناکام ریاست اس سنگین مسئلے کو بحران کی شکل اختیار کرنے سے روکنے میں ناکام رہیں۔ قابض ریاست نے نہ تو ڈیمز بنائے نہ ہی غیرقانونی ڈرلنگ کو روکنے کے لیے کسی قسم کی کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی۔ سائنسی ماہرین کے مطابق19ویں صدی تک بلوچستان میں پانی کی وافر مقدار موجود تھی۔ چشموں سے پانی بہتا رہتا تھا مگر اب بارشیں نہ ہونے سے کوئٹہ کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔
غیرقانونی ڈرلنگ سے کوئٹہ کے علاقوں سریاب بلیلی، سرہ غڑ گئی اور نواں کلی سمیت ملحقہ علاقوں میں زمین میں کئی کلومیٹر تک لمبی لمبی دراڑیں پڑ گئی ہیں جس کے باعث علاقہ مکینوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ زمین میں دراڑیں پڑنے سے درجنوں گھروں کو نقصان پہنچا اور لوگ اپنے مکانات کو چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے شعبے جیالوجسٹ کے پروفیسر ڈاکٹر دین محمد کاکڑ کے مطابق مستقبل کی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے پانی کے ذخائر ضائع کردیے گئے جس کے باعث ہمیں خشک سالی کا سامناکرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے باوجود اب بھی بے دردی سے پانی نکالاجارہا ہے۔
اب تک کوئٹہ میں پانچ ہزار غیرقانونی ٹیوب ویل لگائے گئے ہیں۔ 2003ء کے بعد سے اب تک کوئٹہ میں پانی کے ذخائر دریافت نہیں ہوئے ہیں۔ نہ ہی کوئی سروے رپورٹ سامنے آئی ہے۔ جب کچھ اور نہ بن پڑا تو کوہِ مہردار کی جانب رخ کیا گیا۔ کوہ مہردار کے متعلق2002ء میں ماہرین نے کہا تھا کہ اگر25ٹیوب ویلز کے ذریعے وہاں سے پانی نکالا جائے تو پچیس سال آبادی اسی پر انحصار کرسکتی ہے، لیکن رپورٹ کے برعکس کام کیا گیا اور اب کوہ مہردار پر256 ٹیوب ویل کام کررہے ہیں۔
وادیٔ کوئٹہ کے شہری تو جیسے تیسے پانی خرید لیتے ہیں لیکن بلوچستان کے دیگر علاقوں میں صاف پانی کی کمی کے باعث مختلف مسائل جنم لے رہے اور بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ لوگ ہنستے بستے گھر چھوڑ کر دوسری جگہوں پر منتقل ہونے پر مجبور ہیں۔ چھوٹے آبی ذخائر کی اہمیت اپنی جگہ وسائل سے مالا مال سرزمین بلوچستان کے لیے ناکافی بارشیں پریشان کن مسئلہ ہیں۔ مون سون میں یہاں برسات کی اوسط200ملی میٹر سے بھی کم ہوتی ہے۔ مغربی حصے میں تو کہیں کہیں یہ 50 ملی میٹر سے بھی کم ہوجاتی ہے۔ شدید خشک سالی اور ریاست پاکستان کی ایٹمی دھماکے بعد خود پیداکردہ قحط مقامی آبادی کے لیے انتہائی سنگین حالات پیدا کر رہے ہیں۔ نوشکی، چاغی،دالبندین ،خاران،مستونگ اور مکران کے علاقے خشک سالی کی زد پر ہیں۔ بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کا مطلوبہ بندوبست اور زیر زمین کی گہرائی سے ہونے والی پمپنگ کی سنگینی یہ دونوں عوامی غفلت کے پیدا کردہ مسائل ہیں۔زیرزمین پانی کے ذخائر ختم ہونے کی وجہ سے روایتی نظامِ آبپاشی بشمول کاریز، زیرزمین پانی کی ترسیل کے لیے کھلے کنوؤں کا مربوط نظام غیرفعال ہوچکا ہے۔ ایسے میں ترجیحی بنیادوں پر آبی ذخائر اور ڈیمز کی تعمیر کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ خصوصاً چھوٹے چھوٹے ڈیمز کی تعمیر ناگزیر ہوچکی ہے۔بلوچستان میں100چھوٹے اور بڑے ڈیمز کی تعمیر کے لیے منصوبہ کا باقاعدہ افتتاح 2008ء میں کیا گیا تھا، جنہیں2020 میں مکمل ہونا ہے۔ تاہم 10سال میں اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود اس منصوبے پر محض 30 سے40 فی صد کام ہوپایا ہے۔
بلوچستان کے محکمہ زراعت کے مطابق ڈیمز نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال10.69 ارب مربع میٹر سے8.57 ارب مربع میٹر تقریباً80 فی صد پانی ضائع ہوتا ہے۔ کوئٹہ میں جتنی گنجائش تھی اس سے زیادہ ٹیوب ویل لگائے جاچکے ہیں۔ کوئٹہ میں ایک اندازے کے مطابق 120سے140ٹیوب ویلز کی گنجائش ہے، لیکن اس وقت تین ہزار سے زیادہ ٹیوب ویلز کام کررہے ہیں، جس کی وجہ سے زیرزمین پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل کچھی کینال پر کام شروع ہوا۔ یہ منصوبہ تکمیل کے بعد کچھی اور سبی کے علاقوں میں ستر لاکھ ایکڑ اراضی کی آبپاشی کے لیے پانی فراہم کرسکتا تھا۔ پسنی کی ساحلی پٹی کے مکین نصف صدی سے پانی کی قلت جھیل رہے ہیں۔ شادی کور دریا پر ایک چھوٹا ڈیم بنایا گیا۔ پہلی بارش سے اس میں چالیس ہزار ایکڑ فٹ پانی ذخیر ہوا۔ گوادر کے نزدیک کور ڈیم اور سچی ڈیم کی تعمیر کے باوجود وہاں کے مکین تشنہ لب ہیں۔ بلوچستان کے ساحلی پٹی میں متعدد ڈی سیلنیشن پلانٹس کی ضرورت ہے۔ میرانی ڈیم بلوچستان میں آخری بڑا ڈیم تھا، جو 2002ء میں ضلع کیچ میں دشت دریا پر تعمیر ہوا۔ یہ درمیانے حجم کا ایک کثیر المقاصد ڈیم تھا۔ اس ڈیم کی تعمیر سے سیکڑوں بڑی کاریز اور کنوؤں میں بھی پانی کی فراہمی ممکن ہوئی۔ اندازہ یہ تھا کہ اس ڈیم سے 33200 ایکڑ اراضی کی آبپاشی ممکن ہوگی، لیکن صرف معمولی رقبے کی آبیاری ہوسکی.کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں نصب گلوبل پوزیشننگ سسٹم (جی پی ایس) 2006 سے نصب ہے۔ جی پی ایس کا بنیادی کام زمین کی حرکت کا پتہ لگانا ہے۔ تاہم جی پی ایس نے حیران کن طور پر زمین کے نیچے بیٹھنے کا ڈیٹا فراہم کیا، جو ماہرین کے لیے چونکا دینے والا تھا۔ جی پی ایس کے ڈیٹا پر بلوچستان یونیورسٹی کے ماہر ارضیات اور ماہر معدنیات نے امریکی یونیورسٹی کے ماہر ماحولیات کے تعاون سے تحقیق کی۔ اس تحقیق کے مطابق کوئٹہ کی زمین سالانہ10سینٹی میٹر نیچے بیٹھ رہی ہے، جس کی بنیادی وجہ زیرزمین پانی کا بے دریغ استعمال ہے۔ ماہرین کے مطابق کوئٹہ میں زیرزمین پانی محفوظ حد سے بھی زیادہ نکالا جاچکا ہے، جس کی وجہ سے زمین کی تہہ میں خالی جگہ بن رہی ہے اور زمین بیٹھتی چلی جارہی ہے۔ تحقیق میں اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ وادی کوئٹہ شدید موسمی تبدیلیوں کی زد میں بھی ہے۔ان کے مطابق زمین نیچے سے بہت کم زور ہوگئی ہے اگر اب کوئی زلزلہ آیا تو دو گنا زیادہ نقصان کا باعث بنے گا۔ وہ اپنے اس خدشے کے دفاع میں دلیل دیتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ریت پر دوڑے گا تو تیز نہیں دوڑسکے گا اور جلدی سے گزر نہیں سکے گا۔ اگر وہ شخص ٹھوس سڑک پر دوڑے تو وہ آسانی سے اور جلدی گزر جائے گا۔ ان کے مطابق بالکل اسی طرح زمین زمین کم زور ہوگئی تو آنے والے زلزلے کا دورانیہ زیادہ ہوگا، جس کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر30 لاکھ کی آبادی ہولناک زلزلہ سے بچ بھی گئی تو آئندہ دس سے پندرہ سالوں میں یہاں پانی ختم ہوجائے گا اور یہ شہر ویران ہوجائے گا۔ تحقیق میں زمین کو مزید نیچے بیٹھنے سے بچانے کے لیے ڈیمز کی تعمیر کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تجویز دی گئی ہے کہ زیر زمین پانی کے استعمال کو فی الفور روکا جائے۔سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر کے مطابق25 سال قبل پہاڑوں پر درخت اور جنگلات شہر کی نسبت زیادہ تھے، تاہم اب پہاڑوں کی بجائے شہر میں درخت زیادہ ہیں۔ شہر کی آبادی بھی بڑھ گئی ہے، جس کی وجہ سے نباتات اور انسانوں کے لیے پانی کی ضرورت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ اس اضافے نے لوگوں کو زیرزمین پانی استعمال کرنے پر مجبور کیا جس کی وجہ سے زیرزمین پانی کی سطح روز بروز نیچے گرتی چلی جارہی ہے، جو زمین بیٹھنے کا سبب بن رہی ہے۔ ماہرین نے تحقیق میں شہر کے نواحی علاقے بلیلی اور گاہی خان چوک پر زمین کی سطح پر پڑنے والی دراڑیں بھی دکھائی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ دراڑیں زمین کے نیچے بیٹھنے کی وجہ سے نمودار ہوئی ہیں، جس سے اکثر عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ ماہرین کے مطابق2006 سے اب تک کوئٹہ کی زمین سالانہ10 سینٹی میٹر کی اوسط سے 116 سینٹی میٹر یعنی3.80 نیچے بیٹھ چکی ہے۔ ماہرارضیات کے مطابق زمین کا نیچے بیٹھنا زلزلے کا باعث تو نہیں بنے گا، لیکن کوئٹہ 103 کلومیٹر کی فالٹ لائن پر واقع ہے۔ یہاں زلزلہ کبھی بھی آسکتا ہے۔جو کہ انسانی تباہی کہ الارم ہوسکتی یے۔عالمی ادارے اپنی فلاحی پروگرام کے تحت اور تعاون سے کوئٹہ شہر کے ساتھ پوری بلوچستان میں منظم منصوبہ بندی کے ساتھ ڈیمز تعمیر ہونی چائیے۔مزید یہ کہ بلوچستان میں نصیر آباد ڈویژن زراعت کیلئے مناسب ہے باقی ماندہ بیشتر علاقے منرل زون میں آتے ہے جہاں دستیاب پانی صرف پینے کیلئے موجود ہے نہ کہ زراعت کیلئے اگر اس بارے عوام زیادہ محتاط نہ ہوئے تو انے والے دنوں میں یہ ایک سنگین بحران کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔کوئٹہ سے شمال کی طرف تقریباً دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سنگلاخ چٹانوں میں 1894میں تاج برطانیہ کے دور میں پانی کی سطح بلند رکھنے اور آس پاس کی اراضی کو سیراب کرنے کے لیے ہنہ جھیل بنائی گئی تھی۔1894سے1997ء تک اس جھیل میں پانی کی سطح برقرار رہی۔ تاہم مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے یہ جھیل اب مکمل طور پر خشک ہوچکی ہے۔ سالانہ لاکھوں روپے ٹکٹوں کی مد میں حاصل کرنے کے باوجود جھیل کی بہتری پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔یہ خدشہ اب حقیقت بنتا جارہا ہے کہ دنیا میں آئندہ پانی کے حصول کے لیے خون بہے گا۔اس اہم مسئلے کو حل کرنے کیلئے بلوچ قوم دوست عالمی فلاحی ترقیاتی اداروں کی توجہ اس جانب مبذول کراسکتے ہے کیونکہ اس کے علاوہ دوسرا کو چارہ نہیں قابض ریاست پاکستان دن رات بلوچ کے قومی وسائل لوٹنے اور نسل کشی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ان سے تو ایسے فلاحی منصوبوں کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ (بشکریہ ایکسپریس نیوز)