کوئٹہ(ہمگام نیوز) بلوچ ری پبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی مرکزی وائس چیئرپرسن بانک گوہر بلوچ نے کوہٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جاری فوجی جارحیت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔چادرو چار دیواری کی پامالی، بلوچ سیاسی ورکروں کو اغواء ہونا اور کچھ عرصے بعد انکی لاشیں ملنا معمول بن چکے ہیں۔شاہ شہیداں شہید نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد پورے بلوچستان میں ریاست نے کشت و خون میں اضافہ کرتے ہوئے اسے ڈیرہ بگٹی سے مکران، قلات ڈیویژن کے کونے کونے تک پھیلا دیا ہے بلوچ سیاسی رہنماؤں، کارکنوں، دانشوروں، علماء، شاعر، عدیب اور ہر مکتب فکر کے لوگ ریاست کی درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستانی فورسز نے بلوچ نیشنل موومنٹ کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر منان بلوچ کوانکے چار ساتھیوں سمیت شہید کر دیا جسے ہم بد ترین درندگی سمجھتے ہیں۔بلوچ ری پبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ایک پُر امن سیاسی و طلبہ تنظیم ہے جو پُر امن اور جمہوری اصولوں پر یقین رکتھی ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے کارکنوں اور مر کزی رہنماؤں کا اغواء پاکستانی نام نہاد جمہوری اداروں کے منہ پر طمانہ ہیں۔بی آر ایس او کے سیشن کے باد سے اب تک ہمارے جونئیر وائس چیئرمین سمیت مر کزی کابینہ کے دوست اغواء بعد لاپتہ کر دیئے گئے ہیں جن کی زندگیوں کے بارے میں ہمیں شدید تحفظات ہیں کیونکہ گزشتہ کئی عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایف سی کے اہلکار پہلے سے اغواء شدہ بلوچوں کو تشدد بعد شہید کر کے انکی لاشیں پھینک رہے ہیں جنہیں بعد میں جعلی مقابلہ ظاہر کر کے رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بلوچ ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے کئی سیاسی کارکنوں کو پاکستانی فورسز کی جانب سے اٹھا کر لاپتہ کردیا گیا تھا جن میں پارٹی کے مرکزی رہنما شامل تھے جن میں صفحہ اوّل کے رہنما شہید ثنا سنگت، شہید جلیل ریکی، شہید مرید بگٹی، شہید شیر محمد بلوچ ،شہید احمدداد بلوچ، شہید شاہ محمد بگٹی سمیت متعدد رہنما شامل تھے جنہیں اغواء بعد شہید کر دیا گیا۔جبکہ سیکنڑوں کی تعداد میں اب بھی کارکنان لاپتہ ہیں اور فورسز کی جانب سے اٹھائے جانے کے بعد سے ان کا کوئی پتہ نہیں ہے بلوچ ری پبلکن پارٹی کے فنائنس سیکٹری ریاض بادینی کو 22 جنوری 2015 کو کوئٹہ سے نوشکی جاتے ہوئے ریاستی فورسز کے اہلکاروں نے اغوا کر کہ لاپتہ کردیا ہے پارٹی کے جونئیر نائب صدر امیر محمد 21 جولائی 2014 سے لاپتہ ہے جن کو قلات اور کوئٹہ کے درمیانی علاقے سے ایف سی اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اٹھا کر لاپتہ کردیا ہے جس کے بعد سے ان کاکوئی پتہ نہیں ہے جبکہ بی آر پی آواران کے آئرگنائیزر زائد بلوچ بھی پچھلے تین سالوں سے لاپتہ ہے جس کو مشکے سے ریاستی فورسز نے اغوا کرنے کے بعد لاپتہ کردیاتھا پارٹی کے کوئٹہ میں رندگڑ یونٹ کے صدر اور خاتون رہنما حنیفہ بگٹی جو پچھلے پانچ سالوں سے غائب ہے کی آج تک کوئی معلومات نہیں ہے ان کو فورسز کے اہلکاروں نے کوئٹہ میں ان کے گھر سے 20 جنوری 2011 کو ایک چھاپے کے دوران اغواء کیا تھا جبکہ حال ہی میں بلوچ ریپبلکن پارٹی کے سینٹرل کمیٹی کے رکن نزیر جمالدینی کو 27اور 28 جنوری کی رات فورسز نے نوشکی میں ان کو گھر سے اٹھا کر لے گئے تھے جبکہ ادھر بلوچستان بھر میں آپریشن تیز کردیا گیا ہے پنجگور میں تباہ کن آپریشن کر کے لوگوں کو نکل مکانی پر مجبور کردیا گیا ہے جبکہ بڑی تعداد میں مال دار اور کاروباری لوگوں کو ایف سی اٹھا کر لے گئے ہیں جن میں سے بعض کو خطیر رقوم کی ادائیگی کے بعد رہا کردیا گیا جبکہ متعدد اب بھی لاپتہ ہیں ڈیرہ بگٹی میں نام نہاد وزیر داخلہ پر حملے کو جواز بنا کر ایک خونی آپریشن کا آغاز کردیا گیا ہے نصیر آباد سے متصل ڈیرہ بگٹی کے علاقوں پٹ فیڈر، درینجن، شاری دربار سے آپریشن کا آغاز کردیا گیا تھااور اب آپریشن کا دائرہ کار پنجاب اور کوہلو سے متصل ڈیرہ بگٹی کے علاقوں جن میں زامردان، جترو ریخو، گیانداری میں آپریشن کیا جارہا ہے جس میں دس دس ہیلی کاپٹروں کے ساتھ ساتھ زمینی دستے بھی حصہ لے رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوبائی حکومت اور فوج مل کر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچ قوم کی نسل کشی کررہے ہیں ڈیرہ بگٹی میں حالیہ آپریشن کی ایک کڑی علاقے میں غیرملکی کمپنیوں کو آباد کرنا ہے اور ان کو باور کرنے کیلئے کشت خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے تاکہ ان کے سامنے کوئی آواز بلند نہ کرسکے ۔
چین پاکستان اکنامک کوریڈور منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بلوچستان میں مظلوم بلوچوں کی زندگیوں سے کھیلا جا رہا ہے ۔ 46بلین ڈالر کے اس منصوبے کی اصلیت یہ ہے کہ آج گوادر میں لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں روز گار کا یہ عالم ہے کہ مقامی مزدور خود کشی کر رہے ہیں ۔بلوچستان کے باقی علاقوں میں بھی یہی صورتِ حال ہیں ۔ نام نہاد ترقی کے نام پر بلوچ قوم کی نسل کشی کی جارہی ہے جسے قانونی رنگ بھی دیا جا رہا ہے۔ بانک گوہر نے مزید کہا کہ آج اگر پنجاب میں کوئی شخص اپنی موت آپ مرتا ہے تو مقامی میڈیا میں بریکنگ نیوز بن جاتی ہے یہاں تک کہ فضول اور بہودہ خبریں بھی بریکنگ نیوز کا درجہ حاصل کر لیتی ہیں لیکن بلوچستان میں بلوچ قوم کی نسل کشی، معصوم بچوں اور عورتوں پر بمباری، عورتوں کاا غواء اور شہادت پاکستانی میڈیا کے لیے کسی خبر کی اہمیت نہیں رکتھے۔لیکن یہی میڈیا کشمیر میں کشمیریوں ، فلسطین میں فلسطینیوں اور عراقیوں کے لیے مگر مچھ کے آنسوں روتی ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ خدارا اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور بلوچستان میں جاری ان طویل ریاستی مظالم کو آشکار کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔میں بحیثیت وائس چیئر پرسن بی آر ایس او تمام صحافی حضرات اور انسانی حقوق کے اداروں سے درخواست کرتی ہوں کہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر آواز بلند کریں۔